امریکہ کی سپریم کورٹ کے ججوں کی غیر اعلانیہ تعطیلات اور دولت مند سیاسی عطیہ دہندگان کی جانب سے تحائف کی کئی ماہ کی چھان بین کے بعد ملک کی اس سب سے بڑی عدالت نے اپنے لیے ایک رسمی ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے پیر کو 14 صفحات پر مشتمل ایک دستاویز جاری کی جس میں ججوں کے لیے قواعد اور ذمہ داریوں کا خاکہ پیش کیا گیا اور ایک گائیڈ بھی جاری کی گئی کہ انہیں مفادات کے ٹکراؤ سے کس طرح نمٹنا چاہیے۔
امریکہ میں تحقیقاتی صحافت کی تنظیم پروپبلکا کی کئی ماہ سے جاری تحقیقات میں انکشاف ہوا تھا کہ جسٹس کلیرنس تھامس نے ری پبلکن میگا ڈونر ہارلان کرو سے پرتعیش چھٹیاں اور تحائف وصول کیے تھے۔
جسٹس سیموئل علیٹو اور جسٹس سونیا سوتومیئر کو بھی ماورائے عدالت معاملات کا انکشاف نہ کرنے پر جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
نئے ضابطہ اخلاق کے بارے میں اپنے نوٹ میں عدالت نے کہا کہ قواعد اور اصول ’نئے نہیں ہیں‘ کیونکہ ججوں نے طویل عرصے سے قانونی دفعات اور دیگر وفاقی عدالتی ضابطوں سے اخذ کردہ ’مشترکہ قانون اخلاقیات کے اصولوں کے مساوی‘ پر عمل کیا ہے۔
عدالت نے لکھا، 'تاہم، کوڈ کی عدم موجودگی نے حالیہ برسوں میں یہ غلط فہمی پیدا کی ہے کہ اس عدالت کے جج، اس ملک کے دیگر تمام قانون دانوں کے برعکس، خود کو کسی بھی اخلاقی قواعد سے آزاد سمجھتے ہیں۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے، ہم یہ کوڈ جاری کر رہے ہیں، جو بڑے پیمانے پر اصولوں کی کوڈیفکیشن کی نمائندگی کرتا ہے جو ہم طویل عرصے سے اپنے طرز عمل کو دیکھنے کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس ’غلط فہمی‘ نے عوام اور کانگریس کے ارکان کے اندر غم و غصہ پیدا کر دیا جنہوں نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک رسمی ضابطہ اخلاق اپنائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ جج منصفانہ فیصلے یقینی طور پر کرسکیں۔ تاہم، چیف جسٹس جان رابرٹس نے ابتدائی طور پر اس سے انکار کر دیا تھا۔
اس کے نتیجے میں گذشتہ ایک سال کے دوران عدالت پر عوام کا اعتماد تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ گیا اور 44 فیصد امریکیوں کا اس کے بارے میں منفی نقطہ نظر تھا۔
ڈک ڈربن کی سربراہی میں سینیٹ کی جوڈیشل کمیٹی میں شامل ڈیموکریٹس نے اس معاملے کی تحقیقات کا آغاز اس امید کے ساتھ کیا کہ عدالت پر ضابطہ اخلاق اپنانے کے لیے دباؤ بڑھے گا۔
دریں اثنا، ریپبلکنز طویل عرصے سے غیر اعلانیہ ضابطہ اخلاق میں تبدیلیوں کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور اسے حکومت کے آزاد حصے میں غیر ضروری مداخلت کے طور پر دیکھتے تھے۔
اس اعلان کے بعد سینیٹ کی عدالتی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر چک گراسلے نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ انہیں خوشی ہے کہ عدالت نے ضابطہ اخلاق جاری کیا لیکن یہ اس بات کی علامت ہے کہ کانگریس کو قانون سازی میں مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
On the new SCOTUS code of ethics, @ChuckGrassley tells me it is a sign Congress shouldn’t pass more legislation: “they shouldn't have it anyway, because they're an independent branch of government.”
— Eric Michael Garcia (@EricMGarcia) November 13, 2023
گراسلے کا کہنا تھا کہ 'عدالت کے پاس یہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ عدالت حکومت کا ایک آزاد حصہ ہے۔‘
سینیٹ کی جوڈیشل کمیٹی کے رکن سینیٹر جان کارنین نے گراسلے کے بیان کی تائید کرتے ہوئے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ انہیں خوشی ہے کہ عدالت نے اپنے استحقاق سے ضابطہ اخلاق تشکیل دیا لیکن قانون سازی کے ذریعے کسی قسم کی مداخلت کا امکان نہیں تھا۔
لیکن اب عدالت نئے عوامی طور پر دستیاب ضابطہ اخلاق کی پاسداری کرے گی، جس میں واضح طور پر ججوں کے ’ذاتی اور مالی مفادات‘، ان کی ماورائے عدالت سرگرمیوں اور کسی کیس کی سماعت کے دوران مفادات کے دیگر ممکنہ ٹکراؤ کے بارے میں دفعات شامل ہیں۔
مالی مفاد سے متعلق ایک حصے میں کوڈ کہتا ہے کہ ججوں کو ایسے معاملات سے ’پرہیز‘ کرنا چاہیے جو ’عدالتی پوزیشن کا غلط استعمال‘ کرتے ہیں یا ایسے لین دین میں شامل ہوتے ہیں جن میں وکلا یا لوگ ’عدالت کے سامنے پیش ہونے کا امکان رکھتے ہیں۔‘
اس میں ججوں سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنے مالی معاملات کے ساتھ ساتھ اپنے شریک حیات اور نابالغ بچوں کے بارے میں بھی آگاہ رہیں جو ان کے ساتھ رہتے ہیں اور اس بات پر غور کریں کہ آیا ان کے مالی تعلقات مقدمات کی سماعت کے دوران غیر جانبدارانہ فیصلے کا سبب بن سکتے ہیں یا نہیں۔
عدالت نے تحائف پر جوڈیشل کانفرنس ریگولیشنز کو بھی باضابطہ طور پر اپنایا ہے جو اس بارے میں رہنما اصول فراہم کرتا ہے کہ ججوں اور ان کے اہل خانہ کو تحائف کو کس طرح قبول کرنا چاہیے اور انہیں ظاہر کرنا چاہیے۔
ماورائے عدالت سرگرمیوں کے حوالے سے نئے ضابطہ اخلاق میں ججوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اس بات پر غور کریں کہ آیا یہ سرگرمی ان کے عہدے سے ہٹ کر ہے، سرکاری فرائض کی انجام دہی میں مداخلت یا انصاف کی غیر جانبداری پر منفی اثرات مرتب نہیں کرتی ہے۔
تاہم کوڈ میں یہ واضح نہیں ہے کہ قوانین کو کس طرح نافذ کیا جائے گا یا کسی کیس سے نااہلی کے علاوہ نامناسب طرز عمل کے نتیجے میں کیا سزائیں ہوسکتی ہیں۔
© The Independent