شمالی غزہ پر مسلسل فوجی حملوں کی وجہ سے تمام ہسپتال بند ہوگئے ہیں اور ایمبولینس ٹیموں نے بھی کام روک دیا ہے جس کی وجہ سے نرسوں کو زخمیوں کے علاج اور انہیں ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کے لیے میڈیکل پوائنٹس بنانے پڑے ہیں۔
لڑائی کے دوران کئی طبی مراکز غزہ شہر میں کھولے گئے ہیں جہاں اسرائیلی افواج اور فلسطینی گروپ حماس کے درمیان خونی لڑائی ہو رہی ہے اور شمالی غزہ کی پٹی میں فوجی ٹینک اور بلڈوز پیش قدمی کر رہے ہیں۔
سکولوں کے کلاس رومز، پناہ گاہوں اور کچھ عمارتوں میں میڈیکل پوائنٹس بنائے گئے تھے جن کے دروازے اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں کھول دیے گئے تھے۔
نرسیں ان مراکز میں آنے والے زخمیوں کو بنیادی طبی امداد فراہم کرتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور (او سی ایچ اے) کے اعداد و شمار کے مطابق، ہنگامی طور پر پناہ گاہوں اور سکولوں میں طبی مراکز کھولے گئے، کیونکہ غزہ شہر اور اس کے شمال میں 24 ہسپتال کام نہیں کر رہے تھے اور عرب نیشنل ہسپتال ’المعمدانی‘ اس وقت واحد صحت کا مرکز ہے جو فعال ہے۔
’المعمدانی‘ واحد بے بس ہسپتال ہے جو تنہا تمام طبی خدمات فراہم نہیں کر سکتا اور نہ نئے زخمیوں کو داخل کر سکتا ہے کیوں کہ اس طبی مرکز میں جدید ایکسرے کرنے کے لیے ضروری طبی سامان کی کمی ہے اور اس میں آپریشن رومز نہیں ہیں۔ اس کی جگہ محدود اور اس میں ڈاکٹروں اور بستروں کی تعداد بہت کم ہے۔
’المعمدانی‘ ہسپتال کے آپریشنز اینڈ ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر احمد اللوح کا کہنا ہے کہ ’یہ طبی مرکز اسرائیلی حملوں سے زخمی ہونے والے زخمیوں کے لیے ابتدائی طبی مرکز میں تبدیل ہو گیا ہے۔ ہم ان کی ابتدائی دیکھ بھال کرتے ہیں اور پھر انہیں انتظار کرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں کیوں کہ آپریشن کے منتظر زخمیوں کی فہرست بہت لمبی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے ہسپتال کی لائبریری کو مریضوں اور زخموں کے علاج کے لیے ایک کمرے میں تبدیل کر دیا ہے۔ مسلسل سرجیکل آپریشن کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ ہمارے پاس صلاحیتیں نہیں ہیں، اس لیے زخمی اپنے زخموں کی وجہ سے مر جائیں گے۔‘
محاصرہ ہوا اور ایمبولینس رک گئی
گذشتہ جمعے کی شام تک اللوح کے اس بیان کو درست مانا جا سکتا تھا، جس کے بعد اسرائیلی فوجی سازوسامان نے المعمدانی ہسپتال کی طرف مارچ کرنا شروع کر دیا اور اس کا محاصرہ کر لیا جس میں بتدریج شدت آنا شروع ہو گئی اور اس کے ساتھ فضائی بمباری بھی کی گئی۔
محاصرے کے دوران ایمبولینس ٹیموں نے کام چھوڑ دیا کیوں کہ ایمبولینس اور ہنگامی سروسز فراہم کرنے والے واحد ادارے فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی کے مرکزی آپریشن ہیڈکوارٹرز پر جب ٹینک پہنچے اور اسرائیلی فوج نے اسے زبردستی خالی کرنے پر مجبور کیا تو اسے اپنی گاڑیاں منتقل کرنی پڑیں۔
ہلال احمر میں ایمبولینس اور ایمرجنسی کے ڈائریکٹر محمد ابو مصبح کا کہنا ہے کہ ’اسرائیلی ٹینکوں نے المعمدانی ہسپتال کا محاصرہ کر رکھا ہے اور فورسز ایمبولینسوں کو طبی مرکز سے جانے یا حملے کے مقام تک پہنچنے سے روکتی ہیں اور وہ ہر اس شخص کو نشانہ بناتی ہیں جو وہاں سے جانے کی کوشش کرتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے تقریباً 30 میٹر دور، علاقے میں دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں سنی ہیں۔ ہمیں ہسپتال کے آس پاس بہت سے متاثرین اور زخمی نظر آتے ہیں، اور ایمبولینس کا عملہ ان تک پہنچنے سے قاصر ہے۔ فائرکی شدت کی وجہ سے ہم نے اپنی طبی خدمات معطل کر دی ہیں، جس سے زخمیوں کا خون بہہ رہا ہے اور ان کی موت یقینی ہے۔‘
آؤٹ آف سروس
یہ معاملہ صرف المعمدانی ہسپتال تک ہی محدود نہیں بلکہ اسرائیلی ٹینکوں نے غزہ شہر کے تمام ہسپتالوں بشمول الرنتیسی، النصر، الاولون، القدس اور الشفا میڈیکل کمپلیکس کو گھیرے میں لے لیا اور فوج نے غزہ اور شمال کے 18 سے زائد ہسپتالوں کی انتظامیہ کو مجبور کیا کہ وہ مریضوں کو مکمل طور پر جنوبی غزہ منتقل کریں۔
انخلا کی پالیسی کا اطلاق الشفا ہسپتال کے علاوہ تمام ہسپتالوں پر تھا جس پر افواج نے حملہ کیا تھا اور وہاں اب بھی زخمی افراد کی دیکھ بھال جاری تھی، لیکن یہاں نئے زخمیوں کو داخل نہیں کیا جا رہا تھا، اور اس طرح یہ آؤٹ آف سروس تھا۔
ان حالات میں اور غزہ کے آخری ہسپتال المعمدانی کے بند ہونے اور ایمبولینس ٹیموں کے کام میں خلل پڑنے کے بعد نرسوں کو کوئی حل نہیں ملا سوائے اس کے کہ وہ پناہ گاہوں، سکولوں اور گلیوں سے متصل کچھ کمروں میں طبی مراکز قائم کریں تاکہ زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی جا سکیں۔
آسان تیاری
نرس راما الشانتی کہتی ہیں کہ ’ہم زخمیوں کو خون بہنے اور مرنے کے لیے نہیں چھوڑیں گے۔ ہم نے طبی پوائنٹس کھولے جہاں زخمیوں کی بنیادی دیکھ بھال کی جاتی ہے اور یہ پوائنٹس غزہ شہر میں ہیں، کیونکہ ہم نے مدد کرنے کے لیے سکولوں میں کلاس روم مختص کیے تھے، اور کچھ پناہ گاہوں کو میڈیکل پوائنٹس میں تبدیل کردیا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’میڈیکل پوائنٹس پر ہمارے پاس سادہ آلات ہیں۔ ہم فارمیسیوں میں گئے اور کپاس، میڈیکل گاز، جراثیم کش الکحل، زخموں کی سلائی کے لیے استعمال ہونے والا دھاگا، اور کچھ دوائیں اور اینٹی بائیوٹکس لائے، اور انہیں اپنے بنائے ہوئے میڈیکل پوائنٹس میں تقسیم کیا۔‘
نرس بتاتی ہے کہ وہ ان زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد فراہم کرتی ہیں جو پیدل چل کر ان پوائنٹس تک پہنچتے ہیں، اور ان زخمیوں کو جنہیں ان کے ہمسائے گاڑیوں میں منتقل کرتے ہیں۔
محدود خدمات والا آئیڈیا
الشانتی کا کہنا ہے کہ طبی مراکز بنانے کا خیال اس وقت آیا جب اسرائیلی فوجی سازوسامان غزہ کی گلیوں میں پھیلا اور تمام علاقوں میں بھاری فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں بہت سے افراد مارے گئے اور ایمبولینسوں نے اپنا کام معطل کر دیا اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل نہیں کر پا رہی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
المعمدانی ہسپتال کے قریب اسرائیلی فوج کی گولیوں سے متعدد شہری زخمی ہوئے اور وہ چل نہیں سکتے تھے جب تک وہ میڈیکل پوائنٹ پہنچ نہیں گئے۔
ان میں سے کچھ کے پاس اپنے زخموں کے باوجود ہاتھوں میں خطرناک اور کٹے ہوئے مریض سے اور انہیں طبی امداد ملنے کی امید تھی۔
نرس اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ زخمی افراد روزانہ آتے ہیں، جن میں سے کچھ کو متعدد چوٹیں آتی ہیں اور پیچیدہ سرجیکل آپریشن کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن وہ بتاتی ہیں کہ یہ ان میڈیکل پوائنٹس پر دستیاب نہیں ہے۔
الشانتی کے مطابق نرسیں سرجری نہیں کر سکتیں اور نہ ہی بے ہوشی کے انجکشن دے سکتی ہیں اور نہ ہی شدید زخمی افراد کو سنبھال سکتی ہیں کیونکہ نئے مقامات پر طبی سازوسامان اور استعمال کی اشیا موجود نہیں جو کہ معمولی زخمیوں کو دیکھتے ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے فوج کے ترجمان ڈینیئل ہاگری نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ فوج غزہ شہر کے مرکز میں پہنچ گئی ہے اور المعمدانی ہسپتال کے قریب بڑی کارروائیاں کر رہی ہے کیونکہ حماس ان تنصیبات کو اڈوں کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
’ہمارے نیچے سرنگوں کا جال بچھاتی ہے، ان کے قریب راکٹ فائر کرتی ہے اور آپریشن رومز چھپانے کے لیے مریضوں اور بے گھر افراد کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہے۔‘
یہ خبر اس سے قبل انڈپینڈنٹ عریبیہ پر شائع ہو چکی ہے۔