پیر کے روز لیبیا کے مشرقی حصے میں واقع پولیس کے ادارے المرج سکیورٹی ڈائریکٹوریٹ نے اعلان کیا کہ اس نے متعدد طلبہ کو حراست میں لے کر سکول سے غیر حاضر رہنے اور شہر میں عوامی مقامات پر گھومتے ہوئے پکڑے جانے کے بعد ان کے سر مونڈ دیے ہیں۔
پولیس نے ایک بیان میں مزید کہا کہ ان کے سرپرستوں نے ایک عہدنامے پر دستخط کیے ہیں کہ طلبہ آئندہ باقاعدگی سے سکول جایا کریں گے اور نظم و ضبط کا خیال رکھیں گے۔
پولیس نے کہا ہے کہ یہ مہم اس وقت تک جاری رہے گی جب تک سکول سے غیر حاضری کے رجحان کو ختم نہیں کیا جاتا۔
لیکن دوسری جانب سکول سے غیر حاضر رہنے والے طالب علموں کے سر مونڈ کر سزا دینے کے طریقہ کار کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے اور سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر بحث چھڑ گئی ہے۔
انسانی حقوق کے کارکن طارق لملوم نے ایک بیان میں کہا کہ سکولوں سے بھاگنے کے مسئلے کو وزیر تعلیم، سکول کے پرنسپل اور سرپرستوں کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے، نہ کہ پولیس کے ذریعے، کیوں کہ قانون انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے پولیس پر زور دیا کہ وہ نابالغ لڑکوں پر دباؤ ڈالنے کے بجائے منشیات فروشوں اور انسانی سمگلنگ کرنے والے گروہوں کا تعاقب کریں تو زیادہ بہتر ہو گا۔
بلاگر محمد سالم نے ایک بلاگ پوسٹ میں تبصرہ کیا کہ ’سکول سے غیر حاضر طلبہ کے بال مونڈنے کا کوئی اخلاقی یا قانونی جواز نہیں ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’طلبہ افراتفری کی اسی کیفیت کا شکار ہیں جس سے ملک گزر رہا ہے۔‘
12 سال قبل معمر قذافی کی موت کے بعد سے ملک خانہ جنگی سے گزر رہا ہے۔ اس وقت وہاں صورتِ حال یہ ہے کہ ملک کے مختلف حصوں پر متحارب دھڑوں کا کنٹرول ہے اور اکثر آپس میں برسرِ پیکار رہتے ہیں۔ مزید پیچیدگی مذہبی، لسانی اور قبائلی تقسیم کی وجہ سے پیدا ہو گئی ہے۔
تاہم ایسا نہیں ہے کہ ہر کوئی پولیس کی جانب سے طلبہ کے سر مونڈنے پر معترض ہے۔ طاہر الواعر نامی ایک بلاگر نے لکھا کہ کہ المرج سکیورٹی ڈائریکٹوریٹ نے جو کچھ کیا وہ ’درست طرز عمل تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس کو طلبہ کے مستقبل کی فکر ہے۔‘
ایک اور بلاگر ابراہیم نے کہا کہ ’اس سزا سے طلبہ کو اپنی پڑھائی جاری رکھنے کی ترغیب ملے گی‘ اور اس کے ’مثبت نتائج‘ نکلیں گے۔
(بشکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ)