حالیہ دنوں آئین پاکستان کی 18ویں ترمیم ایک مرتبہ پھر خبروں کی زد میں ہے۔ جہاں ایک جانب آئندہ سال فروری میں عام انتخابات متوقع ہیں وہیں ایسے وقت میں ایک اہم ترمیم سے متعلق نئی بحث کچھ سوالات پیدا کر رہی ہے۔
یہ بحث اس وقت شروع ہوئی جب میڈیا میں ’مسلم لیگ ن کے ذرائع‘ سے خبریں سامنے آئیں کہ ’مسلم لیگ ن حکومت میں آ کر 18 ویں ترمیم میں مزید ترمیم کرے گی۔‘
ان خبروں کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کا ردعمل سامنے آیا تو سابق وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب، سینیٹر عرفان صدیقی اور پھر سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر اسحاق ڈار نے تردید کی۔
اسحاق ڈار کی سینیٹ میں وضاحت کے باوجود معاملہ تھما نہ پیپلزپارٹی کے تحفظات دور ہوئے۔
پیپلزپارٹی اب بھی سمجھتی ہے کہ ’مسلم لیگ ن کی وضاحت تسلی بخش یا پھر کافی نہیں۔‘
پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر تاج حیدر نے اسحاق ڈار کی 18ویں ترمیم سے متعلق وضاحت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ صرف باتیں ہیں۔‘
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا اگر مسلم لیگ ن مزید ترمیم نہیں چاہتی تو صرف باتوں نہیں عمل در آمد سے بھی محسوس ہونا چاہیے کہ وہ 18ویں ترمیم میں مزید ترمیم نہیں چاہتے۔
’ترامیم تو میں بھی دے رہا ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ ن لیگ چاہتی کیا ہے؟‘
انہوں نے سیاسی جماعتوں کی جانب سے تحفظات کے اظہار پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تحفظات عمل کرنے سے دور ہوتے ہیں، بات کرنے سے دور نہیں ہوتے۔
تاج حیدر نے اس بحث کو آئندہ الیکشن سے جوڑتے ہوئے کہا کہ انتخابات سے قبل 18ویں ترمیم میں مزید ترمیم کی باتیں انتخابات ملتوی کروانے کی کوشش ہے۔
’یہ اصل معاملات سے توجہ ہٹانے کے بہانے ہیں۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ انتخابات سے قبل ایک نئی بحث چھیڑ دی جائے اور کہا جائے کہ انتخابات سے پہلے ان معاملات کو طے کر لیں۔ 18 ویں ترمیم میں مزید ترمیم کا معاملہ پس پردہ انتخابات ملتوی کیے جانے کی باتوں کی کڑی ہے۔‘
پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا مسلم لیگ ن کے اندر صحیح سوچ رکھنے والے کچھ افراد ابھی بھی چاہتے ہیں کہ اس ترمیم پر عمل در آمد ہو۔
’مسلم لیگ ن چاہے بھی تو اس ترمیم کو ختم نہیں کر سکتی، وہ ایک آئینی ترمیم ہے۔ 18ویں ترمیم کو پیچھے لے جانے کی بات نہیں ہو سکتی، آگے لے جانے کی ہو سکتی ہے۔ ‘
اس سوال کہ ہر دور میں 18ویں ترمیم میں ترمیم کی بات کیوں کی جاتی ہے؟ کے جواب میں تاج حیدر کا کہنا تھا، ’یہ مرکز پرست لوگ ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ مضبوط مرکز ملک کو چلا سکتا ہے۔ یہ وہ تجربہ ہے جو فیل ہو چکا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں اختیارات کو بانٹنا ملک کو چلا سکتا ہے جبکہ ان کے نزدیک اختیارات کو سلب کرنے سے ملک چلے گا۔‘
’18ویں ترمیم میں چند مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے‘
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے 18ویں ترمیم میں ترمیم کرنے کی حمایت کی ہے۔
پی ٹی آئی رہنما سینیٹر علی ظفر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہ 18ویں ترمیم بہت ضروری تھی۔ ماضی میں کئی فوجی صدر اقتدار میں آئے اور انہوں نے بہت سی ترامیم بھی کیں جس وجہ سے ایک عجیب و غریب آئین بن گیا۔
’اس ترمیم نے ایک اچھی بات کی کہ سب کو صاف کیا اور 1973 کے آئین کی اصل صورت میں واپس لے آئے۔‘
اس ترمیم سے متعلق تحفظات پر گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر علی ظفر نے کہا ’کچھ ایسی چیزیں صوبوں کے پاس چلی گئی ہیں جو نہیں جانا چاہیے تھیں۔
’میں 18ویں ترمیم میں ترمیم کرنے کا نہیں کہہ رہا لیکن اس میں کچھ درستگی کرنے اور کچھ چیزیں مرکز کے پاس واپس لانے کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ صحت اور ماحول کے شعبوں کو مرکز کے پاس رہنا چاہیے اور دوسرا این ایف سی ایوارڈ کے طریقہ کار پر بھی نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
’اس ترمیم میں چند مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے ایک اور ترمیم کرنا ہوگی۔‘
ایسے میں یہ سوالات بھی اٹھتے ہیں کہ 18ویں ترمیم کی اہمیت کیا ہے؟ کیا اس ترمیم کے تحت صوبوں کو مالی وسائل کی تقسیم ایک بڑا مسئلہ ہے؟ اس ترمیم کے خاتمے کے وفاق پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟
انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے پاکستان کے آئینی اور پارلیمانی امور کے ماہر اور پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب سے بات کی۔
’ایوارڈ کی رقم کو کم نہ کیا جانا ایک بڑا مسئلہ ہے‘
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ترمیم کے تحت صوبوں کو مالی وسائل کی تقسیم کا مسئلہ نہیں تاہم اس تقسیم سے اٹھنے والے مسائل میں سے ایک تقسیم میں کمی کا نہ ہونا ہے۔
انہوں نے کہا یہ پابندی لگا دی گئی ہے کہ مستقبل میں ان میں کمی نہیں ہو سکتی، یعنی وہ بڑھ تو سکتے ہیں کم نہیں ہو سکتے۔ ’ساتویں قومی این ایف سی ایوارڈ میں جو پیسے صوبوں کو ملے آئندہ ایوارڈ میں یہ پیسے کم نہیں ہو سکتے۔‘
احمد بلال محبوب نے کہا جو فاق کے پاس پیسے بچ جاتے ہیں وہ اس سے قرضوں کی قسطیں یا سود کی ادائیگی نہیں کر پاتا اور وفاق کے ملازمین کی تنخواہیں بھی دینا مشکل ہو جاتا ہے۔
’اس رقم کو کم نہ کیا جانا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس سے وفاق کی آمدنی کافی کم ہو گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اگر ٹیکسز سے مجموعی طور پر آمدنی بڑھے گی اور ٹیکس چوری کو روکا جائے گا تو وفاق کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور صوبے بھی مطمئن ہوں گے۔ اس ترمیم کو ختم کرنا مسئلہ نہیں بلکہ ٹیکس آمدنی کو بڑھانے کا ہے۔ اس سے صوبوں اور مرکز کے مسائل حل ہو جائیں گے۔‘
’اس ترمیم نے صوبوں کے درمیان تناؤ کو کم کیا‘
اٹھارویں ترمیم کی اہمیت پر مزید بات کرتے ہوئے احمد بلال محبوب نے کہا پاکستان کا سب سے بڑا سیاسی مسئلہ صوبائی خود مختاری ہے جسے 18ویں ترمیم حل کرتی ہے۔
انہوں نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہونے کی وجہ بھی یہ تھی کہ ہم نے ان کے صوبائی خود مختاری کے مطالبات کو پورا نہیں کیا اور اسے ٹھیک طریقے سے حل نہیں کیا۔ اس ترمیم نے صوبوں کے درمیان تناؤ کو کم کیا ہے اور مرکز اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی آئی۔
’ترمیم ختم کرنے سے چھوٹے صوبے مایوس ہوں گے‘
پلڈاٹ کے سربراہ کے خیال میں اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے سے صوبے بد دل اور مایوس ہوں گے اور وفاق کمزور ہو گا۔
آئین میں کسی بھی ترمیم کے لیے پاکستانی پارلیمان کے دونوں ایوانوں (قومی اسمبلی اور سینیٹ) میں اس کے حق میں دو تہائی اراکین کی حمایت درکار ہوتی ہے۔
احمد بلال محبوب نے تجویز دی کہ آئینی ترمیم کے بجائے ’اتفاق رائے کا راستہ اختیار کیا جائے تو بہتر ہو گا۔
’اس عمل میں وقت لگتا ہے لیکن یہی سیاسی عمل ہے کہ لوگوں کے سامنے مسئلہ رکھا جائے اور انہیں متفق کیا جائے، اس کے بعد اتفاق رائے سے اس میں ترمیم کی جائے۔ اتفاق رائے کے بغیر کیے جانے سے وفاق کمزور ہو گا۔‘