پاکستان میں انتخابات کی تاریخ آٹھ فروری کا اعلان ہونے کے بعد سب سے متحرک مسلم لیگ ن دکھائی دے رہی ہے اور عام انتخابات کے لیے جماعت کی تیاریاں نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہیں۔
پارٹی کی جانب سے قومی، صوبائی اور مخصوص نشستوں پر پارٹی ٹکٹ اور امیدواروں کے انتخاب کے لیے پارلیمانی بورڈ کے اجلاسوں کا شیڈول جاری کر دیا گیا ہے۔
پارٹی قائد میاں نواز شریف کی منظوری سے پارلیمانی بورڈ پہلے ہی تشکیل دیا جاچکا ہے۔ جس میں اسحاق ڈار، خواجہ آصف اور مریم نواز سمیت ملک بھر سے 35 ارکان شامل کیے گئے ہیں۔
امیدواروں کو ٹکٹیں دینے کے لیے پارلیمانی بورڈ اپنا کام ہفتے سے لاہور سے شروع کرے گا۔
ترجمان ن لیگ پنجاب عظمیٰ بخاری کے مطابق، ’پارلیمانی بورڈ درخواست دہندہ امیدواروان کے انٹرویو کرے گا اور میرٹ پر ٹکٹیں دینے کا فیصلہ کرے گا۔ پارٹی قیادت نے اس اعلی سطحی بورڈ کو مکمل اختیارات دے رکھے ہیں اس لیے کسی پارٹی رہنما یا کارکن کے لیے شکایت کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔‘
سابق حکمران جماعت کے لیے پارٹی کے لیے قربانیاں دینے والے سابق امیدواروں کے ساتھ نئے الیکٹ ایبلز، نوجوانوں اور خواتین کو ٹکٹوں کے لیے فائنل کرنا ایک چیلنج ضرور ہے۔
تجزیہ کاروں کی اس بارے میں رائے منقسم ہے کہ ن لیگ حلقوں میں روایتی امیدوار اتارے گی یا نئے چہرے لانے میں کامیاب ہوگی۔
بعض سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں ن لیگ پرانے اور وفا داروں کو ہی میدان میں لائے گی جبکہ بعض کے مطابق موروثی سیاست کے خلاف سوالات اور نوجوانوں کو ساتھ ملانے کے لیے نئے چہرے زیادہ لانا ہوں گے۔
ٹکٹوں کی تقسیم کا عمل اور ترجیحات
مسلم لیگ ن کی مرکزی سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگزیب کی جانب سے جاری شیڈول کے مطابق پارلیمانی بورڈ کا پہلا اجلاس کل لاہور میں ہوگا جس میں سرگودھا ڈویژن سے پارٹی ٹکٹ کے لیے امیدواروں کا فیصلہ کیا جائے گا۔
راولپنڈی ڈویژن میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کون ہوں گے؟ یہ فیصلہ تین دسمبر کو ہو گا۔
خیبر پختونخوا کے ہزارہ اور مالاکنڈ ڈویژن میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں کا فیصلہ چھ دسمبر کے اجلاس میں ہوگا۔
سات دسمبر کو یہ بورڈ صوبہ بلوچستان میں پارٹی ٹکٹ کا فیصلہ کرے گا، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں پارٹی ٹکٹ کے بارے میں اجلاس آٹھ دسمبر کو طلب کیا گیا ہے۔
ملتان ڈویژن کے پارٹی امیدواروں کی سیاسی قسمت کا فیصلہ نو دسمبر کو ہوگا۔
ساہیوال ڈویژن سے متعلق 11 دسمبر جبکہ فیصل آباد ڈویژن میں پارٹی ٹکٹ کا فیصلہ 12 دسمبر کے اجلاس میں ہوگا۔ گوجرانوالہ ڈویژن میں پارٹی ٹکٹ کا فیصلہ کرنے کے لیے اجلاس 13 دسمبر کو بلایا گیا ہے۔ لاہور ڈسٹرکٹ ڈویژن کے بارے میں اجلاس 14 دسمبر کو ہوگا۔
لاہور ڈسٹرکٹ ڈویژن میں شیخوپورہ، ننکانہ صاحب اور قصور میں پارٹی امیدواروں کا فیصلہ ہوگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لاہور سٹی ڈویژن میں پارٹی ٹکٹ کی تقسیم کے بارے میں اجلاس 15 دسمبر کو طلب کیا گیا ہے۔ صوبہ سندھ میں پارٹی ٹکٹ کا فیصلہ 16 دسمبر، اسلام آباد اور مخصوص نشستوں کے بارے میں فیصلوں کے لیے 18 دسمبر، اور خیبر پختونخوا کے باقی ماندہ انتخابی حلقوں کے بارے میں پارٹی ٹکٹ کا فیصلہ کرنے کے لیے اجلاس 19 دسمبر کو ہوگا۔
عظمیٰ بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پارٹی قائد میاں نواز شریف کی منظوری سے مرکزی رہنماؤں پر مشتمل پارلیمانی بورڈ امیدواروں سے باقاعدہ انٹرویو کر کے نام فائنل کرے گا۔ بورڈ پرانے اور نئے امیدواروں کی تفصیلات کے علاوہ ان کی حلقے میں شہرت اور خدمت کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلے کرے گا۔‘
عظمیٰ کے بقول، ’پارٹی پالیسی اور الیکشن کمیشن کی شرط کے مطابق خواتین کو جنرل نشستوں پر پانچ فیصد ٹکٹیں جاری کرنا لازمی ہے۔ ہم پہلے بھی اس سے زیادہ نمائندگی دیتے ہیں اور اب بھی مناسب اور میرٹ پر پورا اترنے والی خواتین امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے جائیں گے۔
’ہماری جماعت خواتین اور نوجوانوں کو بھی یکساں مواقع دینے پر یقین رکھتی ہے۔ جن حلقوں میں نئے اور نوجوان امیدوار زیادہ اچھی شہرت رکھتے ہوں گے انہیں ٹکٹ جاری کیا جائے گا۔ پارلیمانی بورڈ میں جو رہنما موجود ہیں ان پر کسی کو اعتراض نہیں ہے۔‘
سیاسی تجزیہ کار وجاہت مسعود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نواز شریف کا اگر اکتوبر 2020 والا بیان دیکھا جائے تو محسوس ہوتا تھا وہ روایتی امیدواروں سے نکل کر نوجوانوں اور خواتین کو سامنے لانے پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن جب انہوں نے کوئٹہ میں خواتین سے متعلق بات کر کے لاہور جلسے میں پرانی ڈگر پر چلنے کا اشارہ دیا اس سے اندازہ ہوتا ہے انہوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا وہ پرانے والے ہی نواز شریف ہیں جو صرف اقتدار چاہتے ہیں۔‘
ان کے خیال میں انہیں نہیں لگتا کہ وہ پرانے بزرگ امیدواروں اور موروثی سیاست سے باہر نکلیں گے۔
’انہیں اس بات کا ابھی تک ادراک نہیں کہ اب پاکستان کافی بدل چکا ہے نوجوان اب لیپ ٹاپ لے کر خاموش ہونے کی بجائے خوداری اور آئینی بالادستی کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔‘
وجاہت کے مطابق: ’ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ دفن کر کے کس طرح نئی سوچ رکھنے والوں کو مصلحتی پالیسیوں کے تابع کیا جاسکتا ہے؟ اب نوجوان حلقوں میں روایتی سیاستدانوں سے سوال ضرور پوچھیں گے کہ جو علم میاں صاحب نے 2017 میں اٹھایا تھا وہ اب ان کے ہاتھ میں کیوں نہیں ہے۔ پنجاب سمیت ملک بھر میں ن لیگ کے بیانیے پر اگر مخالف امیدوار سامنے آئیں گے تو نوجوان ان کی طرف زیادہ متوجہ ہوں گے۔‘
وفاداری نئے امیدواروں کے مد مقابل؟
سیاسی تجزیہ کار سلیم بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سیاست میں سب سے اہم وفاداری ہوتی ہے جو لوگ جنرل مشرف دور سے لے کر جنرل باجوہ تک پارٹی کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی چکی میں پستے رہے، دباؤ، جیلیں، جبر برداشت کر کے بھی نواز شریف کے ساتھ کھڑے رہے انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ نواز شریف کے ساتھ اسی لیے پارٹی رہنما اور اراکین اسمبلی ڈٹ کر کھڑے رہے کہ انہیں یقین تھا کہ برا وقت گزر جائے گا اور وہ ایک بار پھر اپنی قیادت کے شانہ بشانہ ہوں گے۔‘
سلیم بخاری نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اب انہیں ن لیگ کس طرح نظر انداز کر کے نئے امیدوار سامنے لا سکتی ہے۔
’جب نواز شریف خود وزارت عظمی اور شہباز شریف پنجاب کے لیے آئیڈیل ہیں تو کیسے ممکن ہے وہ اپنی ٹیم کے بغیر ایوانوں میں پہنچیں۔‘
سلیم بخاری نے کہا کہ ’ہم کئی دہائیوں سے نواز شریف کی سیاست دیکھ رہے ہیں۔ وہ وفاداروں کو کبھی نہیں بھولتے البتہ جو خود چھوڑ کر چلا جائے اس کی طرف رجوع کم ہی کرتے ہیں۔ پھر چوہدری نثار جیسا اہم ساتھی ہی کیوں نہ ہو۔ لہذا امید ہے ن لیگ زیادہ تر اپنے پرانے اور الیکٹ ایبلز کو ہی ٹکٹ جاری کرے گی۔ تاکہ تجربہ کار اراکین کو ایوانوں میں لایا جائے جن کی وفاداریاں تبدیل ہونے کا بھی خدشہ نہ ہو۔‘
البتہ سینیئر صحافی ندیم رضا اس بات سے اتفاق نہیں کرتے ان کا کہنا ہے، ’نواز شریف ہوں شہباز شریف یا ان کے ہم عمر سینیئر دیگر پارٹی رہنما، انہیں جتنا بھی تجربہ ہو لیکن پانچ سے 10 سال بعد نئی قیادت اور نئے چہرے ہی پارٹی چلا سکیں گے۔ جس طرح مریم نواز اور حمزہ شہباز کی تربیت شروع کر دی گئی ہے۔ اسی طرح حلقوں میں بھی ن لیگ کوشش کرے گی روایتی خاندانوں کے ہی سہی لیکن نوجوان امیدوار سامنے لائے جائیں۔‘
ندیم رضا نے کہا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس الیکشن کے بعد آئندہ کی سیاست کے لیے بھی ان کے پاس مضبوط امیدوار موجود ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس طرح تحریک انصاف نے گذشتہ 10 یا 12 سالوں میں موروثی سیاست کے خلاف بیانیہ بنائے رکھا، نوجوانوں اور خواتین کو ترجیح دی گئی اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی اب نوجوان امیدواروں کو ٹکٹ دینے کی شرح بڑھانی پڑے گی۔‘
ندیم رضا کے خیال میں ’سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا اب ایک حقیقت بن چکا ہے لہذا اب ن لیگ سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ رہنماؤں کی ضرورت ہے۔ تاکہ موجودہ دور کے جدید ٹولز کو استعمال کرنے والوں سے پارٹی عوامی سطح پر استفادہ کر سکے۔ کئی حلقوں میں ن لیگ کے سینیئر اور روایتی امیدوار عمر رسیدہ ہو چکے ہیں ان کے متبادل کے طور پر بھی نوجوانوں کو سامنے لانے پر غور کیا جا رہا ہوگا۔ لہذا وفاداریاں اپنی جگہ نئے روجحانات اور ٹیکنالوجی کو بھی پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا۔‘