نگران صوبائی وزیر برائے ٹرانسپورٹ ابراہیم حسن مراد نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے چنگچی رکشوں پر پابندی کا اعلان سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی روشنی میں کیا ہے۔
چنگچی پر پابندی کے فیصلے کے بعد سے شہریوں کے علاوہ اس روزگار سے منسلک لوگ ذریعہ معاش چھن جانے کے حوالے سے پریشان ہیں اور متبادل کا تقاضہ کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے نگران صوبائی وزیر نے انڈپینڈںٹ اردو کوبتایا: ’ہم کوشش کر رہے ہیں کہ وہ لوگ جو 20 سے 30ہزار روپے بچانے کی خاطر ایک غیر قانونی رکشہ لے چکے ہیں، ان کے لیے ایک سافٹ لون متعارف کروائیں اور اس لون پر ہم ان کو نئے تھری ویلرز دیں تاکہ یہ اپنا ذریعہ معاش اور روزگار کو جاری رکھ سکیں۔‘
دوسری جانب حکومت کے اس فیصلے سے لاہور کے باقی شہریوں کی طرح 22 سالہ محمد رمضان پریشان ہیں۔
رمضان گھر کے واحد کفیل ہیں اور گذشتہ چند برسوں سے چنگچی رکشہ چلاتے ہیں۔ انڈپینڈںٹ اردو سے بات کرتے ہوئے رمضان کا کہنا تھا: ’حکومت رکشے بند کرنا چاہتی ہے۔ ہم اب دو دو لاکھ روپے کا رکشہ کہاں لے کر جائیں؟
’میں اکیلا کمانے والا ہوں اور اسی کام سے ہزار، 1500 روپے بچا کر گھر خرچہ دیتا ہوں۔ میرے علاوہ کئی ایسے ڈرایئورز ہیں جو دیہاڑی پر رکشہ چلاتے ہیں اور وہ دن کے چند سو روپے کما پاتے ہیں۔ حکومت رکشے بند کر دے اور ہمیں کوئی دوسرا کاروبار لے دے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو یہ رکشے بند نہیں کرنے چاہییں۔ ’ہزاروں، لاکھوں کے حساب سے یہ رکشے سڑکوں پر چل رہے ہیں، اتنے رکشے حکومت کہاں لے کر جائے گی؟‘
وزیر برائے ٹرانسپورٹ کا کہنا تھا: ’اس فیصلے کا اطلاق ان تھری ویلرز پر ہے جو کسی کمپنی کی فیکٹری میں نہیں بلکہ گلی محلوں میں بن جاتے ہیں۔ ’بنانے والے ایک ویلڈنگ مشین لیتے ہیں موٹر سائیکل کا پیچھے والا پہیہ نکالتے ہیں اور اس کے ساتھ ایک گاڑی جوڑ دیتے ہیں جس میں پانچ سے چھ لوگ بیٹھتے ہیں۔
’جب یہ چیز 60 سے 70 کلو میٹر کی رفتار پر جاتی ہے خاص طور پر چھوٹے شہروں میں تو موٹر بائیک والا حصہ آگے نکل جاتا ہے جبکہ پچھلا سواریوں والا حصہ پیچھے رہ جاتا ہے اور حادثے کا شکار ہو جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان رکشوں کی وجہ سے متعدد حادثات ہوئے جن میں اموات بھی ہوئیں اور آگ بھی لگی۔
’ان تھری ویلرز کی تعداد پنجاب میں اڑھائی لاکھ ہے جو نہ رجسٹرڈ ہیں، نہ ان کا چالان ہو سکتا ہے نہ یہ کسی ریکارڈ میں آرہے ہیں۔ ‘
پہلا مرحلہ
اس لیے حکومت نے فیصلہ کیا کہ پہلے مرحلے میں ایسے رکشے بنانے والوں پر مکمل کریک ڈاؤن کیا جائے اور جہاں جہاں یہ اپنی مدد آپ کے تحت بن رہے ہیں ان کی سائٹس کو ہم نے سیل کر دیا ہے۔
’صرف فیکٹری کے اندر بننے والے تھری ویلرز اور چنگچی جو سب حفاطتی معیار کو سامنے رکھتے ہوئے بن رہے ہیں ان کو سڑک پر آںے کی اجازت ہوگی۔‘
دوسرا مرحلہ
صوبائی وزیر نے بتایا کہ دوسرے مرحلے میں جو غیر قانونی تھری ویلرز ہیں وہ اپنا فٹنس سرٹیفکیٹ حاصل کر سکتے ہیں۔
’جس میں ان کے انجن کا معیار کہ کہیں وہ آلودگی تو نہیں پھیلا رہے، سسپینشن، بریکس سب ٹیسٹ ہو جائیں گی تو پھر ہم ان کو ایک وقتی رجسٹریشن کی اجازت دے دیں گے جو کہ ایک سال یا اس سے زیادہ کی ہوگی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ عوام کے لیے کیا گیا ہے اور ویسے بھی حکومت کسی غیر قانونی چیز کو برداشت نہیں کرے گی۔
’اب ہم ان کو ریگولرائز بھی کر رہے ہیں اور سیفٹی سٹینڈرڈز پر بھی لا رہے ہیں۔ ‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکومت کے اس فیصلے پر عوام کا ملا جلا رد عمل ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اسے مکمل بند کر دینا چاہیے کیونکہ یہ سڑک پر چلتا پھرتا خطرہ ہیں جبکہ کچھ کہتے ہیں کہ یہ غریب کی سواری ہے اگر بند ہوگئی تو ان کے لیے دوسرا سستا متبادل کیا ہے؟
کچھ کا کہنا تھا کہ اگر اسے بند کیا جائے گا تو اسے چلانے والے کے لیے دوسرا روزگار کیا ہوگا؟ حکومت کوانہیں روزگار کا متبادل بھی فراہم کرنا چاہیے۔
چیئرمین عوامی رکشہ یونین مجید غوری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ یہ فیصلہ کس طرح کے رکشوں کے لیے آیا ہے۔
’ایک چنگچی ہے جو ایک مخصوص کمپنی بناتی ہے اوراس کا سپریم کورٹ نے بھی وضاحت سے بتایا ہے کہ وہ کون سے ہیں۔ اس میں چار لوگ بیٹھ سکتے ہیں اور پانچواں ڈرائیور ہے۔ اس کے علاوہ اس وقت سڑکوں پر ان رکشوں کی بھرمار ہے جس میں موٹر سائیکل نامعلوم ہے اور اس کے پیچھے لگا حصہ نامعلوم ہے اور یہ آلودگی کا سبب بھی بن رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا: ’ایک دم آپریشن کرنا شروع کر دیتے ہیں، آتش بازی کرنے والوں کو پکڑتے ہیں تاہم بنانے والے کو نہیں پکڑتے۔ حکومت یہ بتائے کہ جو رکشے اس وقت تک بن چکے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے؟
’اب جب غریب کا رزق اس پر چل چکا تو آپ اس کے خلاف آپریشن کرنا شروع ہو گئے ہیں۔‘
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت انہیں ریگولیٹ کرے۔
’جو چھوٹا بچہ یہ رکشہ چلا رہا ہے اور وہ گھر کا واحد کفیل ہے اس کو حل نکال کر دیں کہ اس نے کس طرح اپنے گھر والوں کو رزق لے کر گھر جانا ہے۔ اس کو متبادل روز گار دیں۔‘
مجید غوری کا کہنا ہے کہ لاہور میں پبلک ٹرانسپورٹ نہیں ہے۔ ‘میٹرو اور دیگر بسیں اڑھائی تین کروڑ کی عوام کے لیے کیسے پوری ہو گی۔ بسیں سواری کو مرکزی سڑک پر اتارتی ہیں جبکہ آگے کی سڑکوں پر چنگچی چلتی ہے۔‘
انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ اگر یہ رکشے بند کرنے ہیں تو انہیں چلانے والوں کو اس کا متبادل الیکٹرانک رکشہ رضا کا رانہ طورپر دیں تاکہ انہیں بھی معلوم ہو کہ ان کا روزگار چلتا رہے گا۔
وزیر برائے ٹرانسپورٹ ابراہیم حسن مراد کا اس حوالے سے کہنا ہے: ’سب سے اہم انسانی جان اہم ہے، اگر ہمارے پاس دو آپشنز ہوں کہ اگر ایک آدمی بے روزگار ہو جائے یا اس کی جگہ ایک چنگچی میں سوار پانچ سواریاں کسی سڑک پر حادثے کا شکار ہو کر دنیا سے چلی جائیں تو یقیناً ہم پہلے آپشن کو ترجیح دیں گے۔‘