اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعرات کو سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے آڈیو لیک کیس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو آڈیو کے فرانزک کا حکم دیتے ہوئے خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل سے بھی رپورٹ طلب کرلی۔
بشریٰ بی بی نے اپنے وکیل لطیف کھوسہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو لیک ہونے پر گذشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ’وکیل اور کلائنٹ کی آپس کی گفتگو کو ریکارڈ کر کے لیک کیا گیا۔‘
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے جمعرات کو بشریٰ بی بی کی آڈیو لیک کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران بشریٰ بی بی کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’وکیل اور موکل کے درمیان گفتگو پر استحقاق ہوتا ہے۔‘
جسٹس بابر ستار نے وکیل لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے مزید پوچھا کہ ’آڈیو کون ریکارڈ کر رہا ہے؟‘ وکیل نے جواب دیا کہ ’سب کو پتہ ہے کہ کون ریکارڈ کرتا ہے۔‘
جس پر جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ ’بگ باس سب سن رہا ہوتا ہے آپ کو تو پتہ ہونا چاہیے۔‘ جسٹس بابر ستار کے اس ریمارک پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
جسٹس بابر ستار نے مزید کہا کہ ’مفروضے پر تو نہیں چل سکتے۔‘ جس پر وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ’یہ میرا نہیں پورے ملک کے وکلا کا مسئلہ ہے، وکیل موکل سے آزادی سے بات نہ کر سکے تو نظام انصاف کیسے چلے گا؟‘
جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ ’کیا آڈیو سوشل میڈیا پر آئی ہے؟ سب سے پہلے ٹوئٹر پر آئی یا کہیں اور؟ یہ معلوم ہوجائے کہ ریلیز کہاں ہوئی ہے تو پتہ چل سکتا ہے کہ ریکارڈ کس نے کی؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ ‘آڈیو تمام ٹی وی چینلز نے بھی نشر کی، پیمرا ویسے تو کسی کا نام لینے پر بھی سکرین بند کر دیتا ہے، مجھ سے کوئی بات نہیں کرتا کہ آپ کا تو فون ہی محفوظ نہیں ہے۔‘
دوران سماعت جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیتے ہوئے استفسار کیا کہ ’پیمرا بتائے کہ لوگوں کی نجی گفتگو کیسے ٹی وی چینلز پر نشر ہو رہی ہے؟‘
اس کے ساتھ ہی جسٹس بابر ستار نے ہدایت دی کہ ’تحقیقات کی جائیں کہ درخواست گزار کی آڈیو سب سے پہلے کہاں سے جاری ہوئی، ڈی جی آئی ایس بھی رپورٹ دیں کہ آڈیو کس نے ریلیز کی ہے۔‘
انہوں نے ایف آئی اے کو آڈیو کے فرانزک کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ’درخواست کی کاپی ڈی جی آئی ایس آئی کو بھجوائی جائے۔‘
اس کے ساتھ ہی عدالت نے ایف آئی اے، پیمرا اور پی ٹی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 11 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
درخواست میں موقف کیا تھا؟
چھ دسمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا تھا کہ ’وکیل اور کلائنٹ کی آپس کی گفتگو کو ریکارڈ کر کے لیک کیا گیا۔‘
درخواست کے مطابق بشریٰ بی بی اور وکیل سردار لطیف کھوسہ کے درمیان آڈیو کال کو میڈیا پر توڑ مروڑ کر پیش اور پبلک کیا گیا جس کا مقصد بشریٰ بی بی کو ہراساں کرنا اور خاندانی زندگی پر منفی اثرات ڈالنا تھا۔‘
مزید کہا گیا کہ وزیراعظم کے سیکرٹری، سیکرٹری دفاع، سیکرٹری داخلہ اور چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کہہ چکے ہیں کہ کسی بھی ایجنسی کو خفیہ ریکارڈنگ کی اجازت نہیں، لیکن پی ٹی اے اور ایجنسیوں کی جانب سے آڈیو کال کو نہ صرف ریکارڈ کیا گیا بلکہ پبلک بھی کر دیا گیا۔‘
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ اداروں اور ایجنسیوں کو فون کال ریکارڈ کرنے، پبلک کرنے اور تمام جاسوسی آلات کو ہٹانے کے احکامات جاری کیے جائیں۔