آفیشل سیکرٹ کے تحت سائفر کیس میں بدھ کو سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پر ایک بار پھر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔
کمرہ عدالت میں جج ابو الحسنات نے فرد جرم پڑھ کر سنائی جس کے بعد عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے صحت جرم سے انکار کیا۔
اڈیالہ جیل میں قائم خصوصی عدالت کے جج نے فرد جرم پڑھتے ہوئے کہا کہ ’خفیہ سائفر کو جلسہ میں لہرایا گیا اور اس کے مندرجات کو زیر بحث لایا گیا۔ ایسا کرنا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت جرم ہے، بطور وزیراعظم عمران خان کو سائفر رکھنے کا کوئی اختیار نہ تھا۔‘
’سائفر کو جان بوجھ کر اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا گیا، اس عمل سے ملک کے تشخص اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچا۔‘
اس دوران عمران خان نے جج ابو الحسنات سے کہا کہ ’جج صاحب اس میں ایک اور فقرہ شامل کر دیں، بڑا ظلم کیا جو جنرل باجوہ اور ڈونلڈ کو جو ایکسپوز کیا، جنرل باجوہ اور ڈونلڈ لو کو بچانے کے لیے یہ تمام ڈرامہ ہو رہا ہے۔‘
عمران خان نے کہا کہ ’سزائے موت سے ڈر نہیں لگتا، سائفر حکومت گرانے کے لیے لکھا گیا جو گرا دی گئی، سائفر کے اندر سازش ہے جو چھپائی جارہی ہے، میڈیا کو بولنے کی اجازت نہیں تو پھر یہ فیئر ٹرائل کیسے ہو سکتا ہے؟ فئیر ٹرائل نہ ہوا تو اس کی ذمہ داری تمام عمر آپ پر رہے گی اور یہ ذمہ داری آپ نے پوری نہیں کی، قانون کے تحت دستاویزات اور ویڈیو دیکھنے کے لیے سات دن کا وقت دیا جائے۔‘
شاہ محمود قریشی نے عدالت میں بیان دیا کہ ’سینکڑوں سائفر دیکھے لیکن یہ ان میں سے منفرد تھا۔ وزیر خارجہ کو دنیا بھر میں چیف ڈپلومیٹ کہا جاتا ہے، ایک مراسلہ آتا ہے جو چیف ڈپلومیٹ کی نظر سے نہیں گزارا جاتا، میری نظر سے سائفر اوجھل رکھنے کی کوئی تو وجہ ہوگی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’آٹھ مارچ کو فون پر اسد مجید سے بات ہوئی، اسد مجید کو بلائیں اور پوچھیں، پھر حقائق قوم کے سامنے آئیں گے، چیزوں کو خفیہ رکھ کر یک طرفہ ٹرائل نہ چلایا جائے۔ دو محب وطن شہریوں کو اس مقدمہ میں پھنسایا جا رہا ہے۔
’میں بے گناہ ہوں، مجھے سزا دینا چاہتے ہیں، سائفر آئے دن آتے رہتے ہیں، سینکڑں سائفر پڑھے ہیں اور ان پر ہدایات بھی دیں، سائفر کو رکھنا کیسے ہے اور تلف کیسے کرنا ہے، سب چیزوں کی گائیڈ لائن ہوتی ہیں، اگر عدالت نے تمام چیزوں کو نہیں دیکھنا تو لکھا لکھایا فیصلہ لے آئیں۔‘
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے اس پر کہا کہ ’شاہ صاحب ہم کیس کو سن رہے ہیں آپ متوازن بات کیا کریں۔‘
سائفر کیس میں پی ٹی آئی وکلا اور پراسیکوٹرز نے دلائل دیے جن میں عمران خان کے وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ’دو فیصلوں کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے، پہلے ان پر فیصلہ آنے دیں۔ دستاویزات کی جو کاپیاں رہ گئی تھیں وہ فراہم کر دی گئی ہیں۔ سنجیدہ کیس ہے، کیس کو آگے بڑھانے کے لیے سات دن دیے جائیں۔‘
بیرسٹر تیمور ملک نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں ٹرائل کا حصہ بنیں۔ عدالت کو دیکھنا ہے کہ کیا اوپن ٹرائل کے تمام لوازمات پورے ہیں۔ اس چیز کو بھی دیکھنا ہے کہ کیا فردجرم عائد کرنے کے لوازمات پورے ہیں۔ مقدمے کی تمام تر بنیاد ایک سائفر پر ہے اور سائفر اگر گم ہوتا ہے تو اس کی گائیڈ لائنز کو بھی دیکھا جانا ہے۔ گواہان پر جرح کس طرح ہوگی عدالت نے اس کو بھی دیکھنا ہے، فردجرم عائد کرنے کے لیے مزید سات روز کا وقت دیا جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے عدالت سے کہا کہ ’سائفر کیس کو روزانہ کی بنیاد پر چلایا جائے۔ فرد جرم عائد کرنے پر کوئی قدغن نہیں، سات روز سے زیادہ کا وقت دیا جاچکا ہے۔ تمام دستاویزات بھی فراہم کر دی گئی ہیں۔‘
عدالت نے ٹرائل کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
فرد جرم عائد ہوئی یا نہیں؟
دوسری جانب تحریک انصاف کے وکیل سلمان صفدر نے عدالت سے باہر آ کر دعویٰ کیا کہ آج ’فرد جرم عائد نہیں ہوئی‘ اور وہ اس کو نہیں مانتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان نے چارج شیٹ پر دستخط نہیں کیے جبکہ استغاثہ اور عدالتی کارروائی کوریج کے مطابق فرد جرم کی کارروائی ہو چکی ہے۔‘
میسر معلومات کے مطابق قانونی طور جب جج چارج شیٹ یا فرد جرم پڑھ کر سناتے ہیں تو اس وقت ملزم کا کمرہ عدالت میں ہونا ضروری ہوتا ہے اور اس کے جرائم کی فہرست اس کے سامنے پڑھی جاتی ہے۔ اس کے بعد ملزم انکار کرے یا اقرار کرے فرد جرم کی کارروائی ہو جاتی ہے۔
ماضی میں اس سے قبل بھی اسلام آباد کے مشہور کیس ظاہر جعفر کی فرد جرم کی کارروائی میں انہوں نے بھی پہلے دستخط نہیں کیے اور صحت جرم سے انکار کیا لیکن فرد جرم عائد ہو گئی۔
اسی طرح سابق صدر و سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف پر آرٹیکل چھ کے مقدمے میں جج نے ان کی موجودگی میں ان کا جرم پڑھا تھا جس پر پرویز مشرف نے صحت جرم سے انکار کیا تھا۔ لیکن اس سے فرد جرم کی کارروائی ہو جاتی ہے۔ جس کے بعد اگلا مرحلہ استغاثہ کی جانب سے گواہوں کی پیشی ہوتی ہے۔
اسی کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر پہلے فرد جرم کی کارروائی کب ہوئی؟
سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پر سائفر کیس میں پہلے 23 اکتوبر کو فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
اس کے بعد 27 اکتوبر کو سرکاری گواہ طلب کیے گئے لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کے باعث کارروائی آگے نہ بڑھ سکی۔ پھر 31 اکتوبر کی تاریخ طے ہوئی جس میں دس گواہوں کو پیش کیا گیا لیکن بیابات قلمبند نہ کیے جاسکے۔ جس کے بعد عدالت نے سات نومبر کی تاریخ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہر حال میں آئندہ سماعت پر بیان قلمبند کیے جائیں گے۔
تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے 21 نومبر کو ٹرائل کورٹ کے فیصلے کالعدم قرار دیتے ہوئے قانونی تقاضوں کے ساتھ ازسرنو ٹرائل کا حکم دیا تھا جس کے بعد خصوصی عدالت نے جیل ٹرائل کے قانونی تقاضے پورے کیے اور اڈیالہ جیل میں ٹرائل کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا۔
سائفر کیس میں عمران خان کی گرفتاری کو 18 ہفتے ہو گئے ہیں۔ عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں پانچ اگست جبکہ سائفر کیس میں 15 اگست کو گرفتار کیا گیا تھا، جبکہ شاہ محمود قریشی کو 20 اگست کو گرفتار کیا گیا تھا۔
ایف آئی اے نے چالان میں 27 گواہان کا حوالہ دیا، مرکزی گواہ اعظم خان ہیں جو پہلے ہی عمران خان کے خلاف ایف آئی اے کے سامنے گواہی ریکارڈ کروا چکے ہیں۔