انتخابات میں انتخابی نشان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ سیاسی جماعتیں، ووٹرز اور الیکشن کمیشن آف پاکستان بیلٹ پیپرز کی پرنٹنگ سے لے کر ووٹوں کی گنتی تک اپنے امور کو آسان اور شفاف بنانے میں اسی سے رہنمائی لیتے ہیں۔
ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح پاکستان تحریک انصاف کی اس کے ووٹروں میں مقبولیت میں اس کا انتخابی نشان ’بلا‘ (Bat) 2018 کے عام انتخابات کے موقعے پر سامنے آیا تھا اور چونکہ پی ٹی آئی کے امیدوار غیر معروف تھے اور ووٹرز ان کو ان کے ناموں سے نہیں جانتے تھے، تحریک انصاف کا انتخابی نشان کرکٹ کی مناسبت سے عوام کی نظروں میں مقبول ترین انتخابی نشان بن گیا۔
جس طرح پاکستان پیپلز پارٹی 1988 سے انتخابی نشان ’تیر‘ سے ہی متعارف رہی اور مارچ 1977 اور اس سے پیشتر 1970 کے انتخابات میں ’تلوار‘ کا انتخابی نشان مقبول ترین انتخابی نشان رہا۔ اسی طرح شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے 1970 کے انتخاب میں ’کشتی‘ کے نشان پر سات اور 17 دسمبر 1970 کے انتخابات میں حصہ لیا تھا اور عوامی لیگ کا انتخابی نشان ’کشتی‘ اب بھی بنگلہ دیشی حکومت کا قومی نشان ہے۔
امریکہ میں دو سو سال سے انتخابی نشان ’گدھا‘ اور ’ہاتھی‘ ابھی تک بیلٹ پیپرز پر موجود ہیں۔ انڈیا میں کانگریس کا انتخابی نشان ’چرخہ‘ 1934 سے اب تک خصوصی امتیازی نشان ہے اور سری لنکا میں ’پان کا پتہ‘ اور ’ہاتھی‘ ان کی انتخابی مہم کا اہم ترین انتخابی نشان ہے۔
حالیہ دنوں میں تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات پر اٹھنے والے الیکشن کمیشن کے سوالات اور اس کی روشنی میں ’بلے‘ کا انتخابی نشان واپس لینے کا اقدام اس کی قیادت نے پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا، جہاں جج کامران حیات میاں خیل پر مشتمل سنگل بینچ نے سماعت کے بعد انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دینے اور انتخابی نشان واپس لینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا اور رٹ پٹیشن کو موسم سرما کی تعطیلات کے بعد ڈویژن بینچ کے سامنے سماعت کے لیے رکھنے کا کہا۔
عدالتی حکم نامے میں الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف کا سرٹیفکیٹ ویب سائٹ پر ڈالنے اور انتخابی نشان بحال کرنے کی بھی ہدایت کی گئی۔ عدالت نے ریمارکس میں کہا ہے کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا اس کے ووٹروں کی حق تلفی ہے۔ اگر پارٹی سے انتخابی نشان واپس لے لیا جائے تو پھر انتخابی عمل بے جان ہو کر رہ جائے گا۔
پشاور ہائی کورٹ نے فیصلے میں انتخابی نشان کی اہمیت پر زور دیا، لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ سماعت کے موقع پر الیکشن کمیشن کا کوئی وکیل عدالت میں موجود نہیں تھا۔
تحریک انصاف کے مؤقف کا دفاع کرتے ہوئے ممتاز قانون دان سینیٹر سید علی ظفر کا کہنا تھا کہ انتخابی نشان نہ ہونے کی صورت میں تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں بھی نہیں مل سکتیں۔ فاضل جج نے حیران کن ریمارکس دیے کہ انہوں نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ ہی نہیں پڑھا اور صرف اس پر اِکتفا کیا کہ الیکشن کمیشن نے قرار دیا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کروانے والی مجاز اتھارٹی کی تعیناتی پارٹی کے دستور کے مطابق نہیں تھی اور غلط تعیناتی کی گئی۔
تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان کا معاملہ کیا نتائج دے سکتا ہے اور زمینی حقائق کی روشنی میں سپریم کورٹ تک جاتا دکھائی دے رہا ہے، جس کے منطقی انجام کے گہرے اثرات آئندہ ہونے والے انتخابات پر پڑیں گے۔
انٹرا پارٹی الیکشن کا فیصلہ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے دستور کو ہی مدنظر رکھا تھا اور فیصلے میں انٹرا پارٹی انتخاب کی خامیوں کی نشاندہی کی تھی۔ اب اگر انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں آ جاتا ہے تو الیکشن کمیشن کے ہاں ممنوعہ فنڈنگ کیس کا اہم ترین مقدمہ بھی زیر سماعت ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ دو سال سے یہ اہم ترین مقدمہ مختلف عدالتوں سے ہوتا ہوا ایف آئی اے اور دیگر اداروں کے مرحلہ وار تفتیشی عمل سے گزرتا ہوا الیکشن کمیشن کے ہاں زیر سماعت ہے۔ تحریک انصاف نے بھی فیصلہ کو روکنے کے لیے حکم امتناعی لے رکھا تھا اور اس معاملے پر سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کو کارروائی کرنے کی اجازت دے رکھی تھی اور الیکشن کمیشن نے بعض معروضی حالات کے پیش نظر یا حکم امتناعی کی وجہ سے کارروائی مکمل نہیں کی۔
اب اگر حکم امتناعی واپس لیا جاتا ہے تو الیکشن کمیشن ممنوعہ فنڈنگ ضبط کرنے کے بعد پارٹی کا انتخابی نشان الیکشن ایکٹ کی دفعات 209 اور 215 کے تحت واپس لینے کا مجاز ہے، لیکن اس کے لیے پارٹی کے سربراہ کو شوکاز نوٹس دینا لازمی ہو گا۔ بہرحال تحریک انصاف اس وقت اپنی ماضی کی غلط پالیسی کی وجہ سے عدالتی گرداب میں ہے۔
تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا جاتا ہے تو تحریک انصاف قومی دھارے سے آؤٹ ہو جائے گی۔ وہ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں سے محروم ہونے کے علاوہ آئندہ سینیٹ کی 52 نشستوں پر بھی اپنے نمائندے کھڑے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی۔
عام انتخابات کے لیے 32 ہزار کے لگ بھگ امیدواروں نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروائے ہیں، جن میں پاکستان کی اہم ترین سیاسی شخصیت شامل ہیں۔ حیرانی ہے کہ نواز شریف، بلاول زرداری، عمران خان نے انتخابی قوانین اور آرٹیکل (1) ایف کو مدنظر ہی نہیں رکھا۔
بلاول بھٹو زرداری نے لاہور کے حلقہ 127 میں کاغذاتِ نامزدگی جمع کرواتے ہوئے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 203 کو مدنظر نہیں رکھا۔ اسی ایکٹ کے مطابق پارٹی کے عہدیدار ایک ہی پارٹی سے وابستگی ظاہر کر سکتا ہے، جب کہ بلاول زرداری پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرین کے وائس چیئرمین ہیں جو کہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 203 کے تحت غیرقانونی کے زمرے میں آتے ہیں۔
اس کا فیصلہ بھی ریٹرننگ افسران نے ہی کرنا ہے کیونکہ ان کے کاغذاتِ نامزدگی پر اعتراضات داخل کروا دیے گئے ہیں۔ امیدواروں کی رہنمائی کے لیے الیکشن ایکٹ 62 کے مطابق امیدواروں کو ذاتی حیثیت سے ریٹرننگ افسران کے روبرو پیش ہونا لازمی نہیں ہے۔
ریٹرننگ افسران 30 دسمبر تک جانچ پڑتال کے عمل کو مکمل کرنے کے لیے قانونی طور پر مجاز ہیں اور بعدازاں اپیلٹ الیکشن ٹربیونلز 18 جنوری تک اپنے فیصلے سنانے کے لیے پابند ہیں۔
اسی طرح دو جنوری 2024 کو سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 52 (1) ایف اور الیکشن ایکٹ کی دفعہ 232 کے بارے میں اہم ترین فیصلے کرنے ہیں اور چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا لارجر بینچ سماعت کرے گا۔
اسی طرح چھ جنوری 2024 کو سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے عمران خان کے خلاف زیرسماعت مقدمات کے بارے میں اہم ترین فیصلے کرنے ہیں اور نو جنوری کو پشاور ہائی کورٹ کا ڈویژن بینچ انٹرا پارٹی الیکشن کے بارے میں سماعت کرے گا۔
آئندہ انتخابات آٹھ فروری کو ہونا ہیں، اس سے بیشتر جنوری کا پہلا ہفتہ عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے فیصلوں کا منتظر ہے۔
انتخابات کا طبل بج چکا ہے۔ 13 جنوری تک انتخابات کی دھند ختم ہو جائے گی اور امیدواروں کو انتخابی مہم کے لیے 24 دن کی مدت حاصل ہو جائے گی۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔