سپریم کورٹ میں نااہلی پانچ سال یا تاحیات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ’کیا کوئی شخص حلف پر یہ بیان دے سکتا ہے کہ وہ اچھے کردار کا مالک ہے۔ اسلام میں بھی توبہ کی گنجائش ہے۔ جو اہلیت کا سخت معیار پارلیمینٹیرین کے لیے ہے وہ ہمارے لیے تو نہیں ہے۔‘
پارلیمان کے لیے بی اے کی شرط پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’اگر 2002 میں قائد اعظم ہوتے تو وہ بھی نااہل ہوتے۔‘
نااہلی کی مدت سے متعلق کیس پر مزید کارروائی جمعرات تک ملتوی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ’تاحیات نااہلی کی حمایت میں کوئی بھی بات کرنا چاہے آئے ہم سنیں گے، آئندہ سماعت پر کیس ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
’ہم میڈیا یا سوشل میڈیا کو کنٹرول نہیں کر سکتے، موجودہ کیس سے یہ تاثر نہ لیا جائے کہ عدالت کسی مخصوص جماعت کی حمایت کر رہی ہے، ایک آئینی مسئلہ ہے جس کو ایک ہی بار حل کرنے جا رہے ہیں۔ نااہلی کی مدت کا تعین آئین میں نہیں، ’اس خلا کو عدالتوں نے پر کیا۔‘
چیف جسٹس نے جہانگیر ترین کے وکیل سے کہا کہ ’مخدوم صاحب ماضی کی کوئی نظیر بتائیں جب نیا قانون بن جانے سے پرانا فیصلہ غیر موثر ہوا ہو؟‘
مخدوم علی خان نے کہا کہ ’عدالت مجھے اجازت دے تو میں مزید دستاویزات کے بنڈل فائل کردیتا ہوں۔‘
وکیل ثاقب جیلانی نے عدالت کے سامنے نکتہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’عدالت اس معاملے کو بھی دیکھ لے کہ سزا معطلی سے نااہلی ختم ہوتی ہے یا نہیں؟‘
چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ’نہیں ہم زیر التوا کیسز میں نہیں جائیں گے، ہم اہلیت اور نااہلی تک ہی محدود رہیں گے۔‘
کیس کی سماعت میں مزید کیا ہوا؟
منگل کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سات رکنی لارجز بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
اٹارنی جنرل نے سماعت کے آغاز میں دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی سزا پانچ سال کرنے کی قانون سازی کو سپورٹ کر رہے ہیں، تاحیات نااہلی کی مدت کے فیصلے پر نظر ثانی ہونی چاہیے۔‘
اٹارنی جنرل نے آئین کاارٹیکل باسٹھ، تریسٹھ پڑھ کرسنائی۔ اٹارنی جنرل نے رکن پارلیمنٹ بننے کے لیے اہلیت اور نااہلی کی تمام آئینی شرائط بھی پڑھ کر سنائیں۔ انہوں نے کہا کہ ’کاغذات نامزدگی کے وقت سے باسٹھ اور تریسٹھ دونوں شرائط دیکھی جاتی ہیں۔ انٹری پوائنٹ پر دونوں آرٹیکل لاگو ہوتے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’کچھ شقیں تو حقائق سے متعلق ہیں وہ آسان ہیں۔ کچھ شقیں مشکل ہیں جیسے اچھے کردار والی شق۔ اسلامی تعلیمات کا اچھا علم رکھنا بھی ایک شق ہے۔پتہ نہیں کتنے لوگ یہ ٹیسٹ پاس کرسکیں گے۔ الیکشن ایکٹ کی یہ ترمیم چیلنج نہیں ہوئی۔جب ایک ترمیم موجود ہے تو ہم پرانے فیصلے کو چھیڑے بغیر اس کو مان لیتے ہیں۔‘
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’تاثر ایسا کا سکتا ہے کہ ایک قانون سے سپریم کورٹ فیصلے کو اوور رائٹ کیا گیا۔‘
چیف جسٹس نے ماضی کے ایک نااہلی کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے استفسار کیا کہ ’تو کیا اب ہم سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو دوبارہ دیکھ سکتے ہیں؟‘
اٹارنی جنرل جواباً کہا کہ ’سمیع اللہ بلوچ کیس میں عدالت نے ایک نکتے کو نظر انداز کیا۔ عدالت نے کہا کرمنل کیس میں بندا سزا کے بعد جیل بھی جاتا ہے۔ اس لیے نااہلی کم ہے۔ عدالت نے یہ نہیں دیکھا ڈیکلیریشن باسٹھ ون ایف اور کرمنل کیس دونوں میں ان فیلڈ رہتا ہے۔‘
اس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ’تریسٹھ ون جی اور باسٹھ ون ایف دونوں کی تعریف ایک جیسی ہی معلومات ہوتی ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’بغیر ایف آئی آر یا مقدمے کے بھی آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات کی جاتی ہے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ ’آرٹیکل باسٹھ ون ایف میں کہاں لکھا ہوا ہے کہ نااہلی کی مدت کتنی ہے۔جب غیر منتحب لوگ قوانین بنائیں گے تو ایسے ہی ہو گا۔‘
استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت پانچ سال مقرر کرنے کے حق میں ہوں۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’جس فوجی آمر نے 1985 میں آئین کو روندا، اسی نے آرٹیکل 62 اور 63 کو آئین میں شامل کیا۔ ایک مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کیسے آئین میں اہلیت کا معیار مقرر کرسکتا ہے؟‘
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’سوال یہ بھی ہے کہ اٹھارویں ترمیم میں آرٹیکل 62 اور 63 پر مہر لگائی۔ جھوٹ بولنے پر سزا تاحیات ہے، قتل یا غداری پر سزا محدود ہے اور وہ الیکشن بھی لڑسکتا ہے، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’اگر فوجداری مقدمات میں عدالت کسی شخص کو جھوٹا قرار دے کہ اس نے عدالت کو گمراہ کیا ہے، کیا اس پر آرٹیکل 62 ون ایف لگے گا؟ کل وہ شخص انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا کہ کوئی اعتراض کر دے گا تمہیں عدالت نے جھوٹا قرار دیا ہے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت صاحب سول کیسز کے ماہر ہیں ان سے رائے لیتے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے سپریم کورٹ بار کے صدر سے پوچھا کہ ’شہزاد شوکت صاحب آپ قانون کی حمایت کر رہے ہیں یا مخالفت؟‘
صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے کہا کہ ’میں قانون سازی کی حمایت کرتا ہوں۔‘
یہ سننے کے بعد چیف جسٹس نے پوچھا کہ ’وہ کون ہے جو قانون کی مخالفت کرہا ہے، ہم سننا چاہتے ہیں۔‘
وکیل درخواست گزار عثمان کریم روسٹرم پر آ گئے انہوں نے کہا کہ ’جب تک سمیع اللہ بلوچ کا فیصلہ موجود ہے قانون نہیں آ سکتا۔‘
چیف جسٹس نے ان سے پوچھا کہ ’آپ تاحیات نااہلی کے حق میں ہیں یا مخالفت میں؟‘
وکیل عثمان کریم نے جواب دیا کہ ’میں تاحیات نااہلی کے تب تک حق میں ہوں جب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔‘
چیف جسٹس نے عدالت میں موجود وکلاء سے استفسار کیا کہ ’اور کون اس قانون کی مخالفت کرتا ہے؟‘
سمیع اللہ بلوچ کے بھائی وکیل ثنااللہ بلوچ روسٹرم پر آئے اور کہا کہ جب اگر کوئی انتخابات عمل کے انٹری پوائنٹ پر ہی جھوٹ بولے ہیں تو اس پر تاحیات نااہلی ہو گی۔‘
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ’آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایک شخص جو 24 سال کا ہے انتخابات لڑنے کے لیے وہ کہے کہ نہیں وہ 25 سال کا ہے تو تاحیات نااہلی ہو گی؟‘
سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
گذشتہ برس 11 دسمبر کو تاحیات نااہلی کے معاملے پر عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ کی ترمیم میں تضاد پر نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ ’تاحیات نااہلی کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے، الیکشن ایکٹ میں ترمیم اور سپریم کورٹ کے فیصلے میں سے کسی ایک کو برقرار رکھنا ہو گا۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا تھا کہ ’سنگین غداری جیسے جرم پر نااہلی پانچ سال ہے تو نماز نہ پڑھنے والے یا جھوٹ بولنے والے کی تاحیات نااہلی کیوں؟‘
سپریم کورٹ نے 11 دسمبر کو اٹارنی جنرل اور تمام صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کرتے وقت یہ واضح کیا تھا کہ ’موجودہ کیس کو انتخابات میں تاخیر کے آلہ کار کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا۔‘
عدالت عظمیٰ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’کوئی سیاسی جماعت اس کیس میں فریق بننا چاہے تو بن سکتی ہے۔‘
میر بادشاہ قیصرانی کیس کیا ہے؟
11 دسمبر 2023 کو اس کیس کی ابتدائی سماعت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) ف کے رہنما میر بادشاہ قیصرانی کے وکیل سے استفسار کیا تھا کہ ان کے موکل کو نااہل کیوں کیا گیا تھا؟‘
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ’میر بادشاہ قیصرانی کو گریجویشن کی جعلی ڈگری کی بنیاد پر 2007 میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح پر پانامہ کیس میں فیصلہ دے دیا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس موقعے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’کسی کی سزا ختم ہو جائے تو تاحیات نااہلی کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟ سپریم کورٹ کی تاحیات نااہلی کے معاملے پر دو آرا ہیں۔‘
چیف جسٹس پاکستان نے مزید استفسار کیا کہ ’نااہلی اور آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کوئی نیا قانون بھی آ چکا ہے؟‘ وکیل کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ ’حال ہی میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے نااہلی کی زیادہ سے زیادہ مدت پانچ سال کر دی گئی ہے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن ایکٹ میں ترمیم کسی نے چیلنج نہیں کی، جب الیکشن ایکٹ میں ترمیم چیلنج نہیں ہوئی تو دوسرا فریق اس پر انحصار کرے گا۔ الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 شامل کرنے سے تو تاحیات نااہلی کا تصور ختم ہو گیا ہے۔ انتخابات سر پر ہیں، لیکن ریٹرننگ افسر، الیکشن ٹریبونل اور عدالتیں اس مخمصے میں رہیں گی کہ الیکشن ایکٹ پر انحصار کریں یا سپریم کورٹ کے فیصلے پر۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے اس موقع پر ریمارکس دیےکہ ’الیکشن ایکٹ کا اطلاق موجودہ انتخابات پر ہوگا، الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 کی شمولیت کے بعد تاحیات نااہلی سے متعلق تمام فیصلے غیر موثر ہو گئے۔‘
تاحیات نااہلی کے فیصلے سے متاثر ہونے والے سیاست دان
سابق وزیراعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کے فیصلے میں 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہل قرار دے دیا تھا۔
تاہم انہوں نے گذشتہ برس جولائی میں الیکشن ایکٹ میں ہونے والی ترمیم کے بعد آنے والے عام انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں، لیکن پانامہ کیس کا فیصلہ بھی اپنی جگہ موجود ہے۔
اسی طرح استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر ترین کو 15 دسمبر 2017 کو ان کے حریف حنیف عباسی کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔
درخواست گزار حنیف عباسی نے عمران خان اور جہانگیر ترین پر آف شور کمپنی چھپانے اور جائیداد کی شفاف منی ٹریل نہ ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ عدالت نے عمران خان کو اہل قرار دیتے ہوئے جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیا تھا۔
جہانگیر ترین نے بھی الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عام انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے ہیں، جو منظور ہو چکے ہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔