پی ٹی آئی کے ’بلے‘ کا نشان بحال، ملک بھر میں امیدوار کھڑے کرنےکا اعلان

پشاور ہائی کورٹ نے بدھ کو الیکشن کمیشن کے 22 دسمبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے بلے کا نشان بحال کر دیا ہے۔

چھ مارچ 2021 کو اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے باہر پاکستان تحریک انصاف کے حامی کارکن پارٹی کا نشان بلا اٹھائے نعرے بازی کرتے ہوئے (فاروق نعیم/ اے ایف پی)

پشاور ہائی کورٹ نے بدھ کو محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بلے کا نشان بحال کر دیا ہے جبکہ جماعت کے رہنما بیرسٹر گوہر خان نے پورے پاکستان کے حلقوں سے امیدوار کھڑا کرنے کا اعلان کیا ہے۔

الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر 2023 کو اپنے ایک فیصلے میں پی ٹی آئی کی طرف سے کروائے گئے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس جماعت کو بلے کا انتخابی نشان نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

اس فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور جسٹس کامران حیات میاں خیل پر مشتمل ایک رکنی بینچ نے 26 دسمبر کو الیکشن کمیشن کے فیصلے کو معطل کر دیا تھا، جس کے خلاف الیکشن کمیشن نے نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی اور تین جنوری 2024 کو جسٹس اعجاز خان نے کمیشن کے فیصلے کو بحال کر دیا۔

تحریک انصاف نے ایک مرتبہ پھر اس فیصلے کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس کی سماعت، 10 جنوری 2023 کو جسٹس اعجاز انور اور جسٹس سید ارشاد علی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی اور پی ٹی آئی، الیکشن کمیشن اور دیگر فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے تحریک انصاف کو بلے کا نشان واپس کر دیا۔

تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر نے بدھ کو میڈیا سے گفتگو میں فیصلے کو بروقت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’کل ہم اپنے ٹکٹوں کا اعلان کریں گے اور پرسوں پورے پاکستان کے حلقوں میں ہمارا امیدوار ہو گا۔‘

سماعت کا آغاز ہوا تو ایڈوکیٹ قاضی جواد نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’میرے موکل کو میڈیا سے پتہ چلا کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہو رہے ہیں۔ وہ الیکشن میں حصہ لینا چاہتے تھے لیکن ان کو موقع نہیں دیا گیا۔‘

اس موقع پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ ’آپ نے یہ نہیں کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کروائے جائیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیا تو آپ کو چاہیے تھا کہ دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرتے۔‘

جسٹس اعجاز انور کا کہنا تھا کہ ’آپ اگر پارٹی سے تھے تو پارٹی نشان واپس لینے پر آپ کو اعتراض کرنا چاہیے تھا آپ نے نہیں کیا۔

اس پر قاضی جواد نے کہا کہ ’ہمیں تو انتخابات میں موقع نہیں دیا گیا اس کے خلاف الیکشن کمیشن گئے۔‘

دوسری جانب بینچ میں شامل جسٹس ارشد علی نے کہا کہ ’ایک دفعہ الیکشن شیڈول جاری ہو جائے تو پھر کیسے آپ کسی کے انتخابی نشان کا فیصلہ کر سکتے ہیں؟‘

جسٹس ارشد علی نے کہا کہ ’کیا کوئی پارٹی بغیر انتخابی نشان کے انتخابات میں حصہ لے سکتی ہے؟‘

عدالتی فیصلے کے بعد پشاور ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’قوم کو مبارک دینا چاہتا ہوں کہ پشاور ہائی کورٹ نے اپنی انصاف اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے کی روایت کو آج قائم کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے جو بلے کا انتخابی نشان پی ٹی آئی سے زبردستی لیا تھا اس حکم نامے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’عدالت نے کہا ہے کہ فی الفور بلے کا نشان پی ٹی آئی کو واپس دیا جائے اور اسے اپنی ویب سائٹ پر اسے نوٹیفائی کر دیا جائے۔‘

پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر خان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بلے کا نشان پی ٹی آئی کے لیے صرف ایک نشان نہیں ہے یہ پاکستانی قوم کی امنگوں کی ترجمانی کرنے والا نشان ہے۔‘

بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ ’یہ فیصلہ بروقت آیا ہے۔ اب انشا اللہ کل ہم ٹکٹوں کا اعلان کریں گے اور پرسوں ہر حلقے میں ہمارا امیدوار ہوگا اور کاغذات جمع کروا دے گا۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان