چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ملک میں ممنوعہ بور لائسنس کے اجرا کا از خود نوٹس لے لیا ہے، جس کا تحریری حکم نامہ جمعے کو رات گئے جاری کیا گیا۔
یہ نوٹس 17 جنوری کو مردان میں اسلحہ چوری کے ملزم کی ضمانت کے مقدمے میں لیا گیا، جو چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی جانب سے لیا گیا پہلا از خود نوٹس ہے۔
سپریم کورٹ نے ممنوع بور لائسنس کے اجرا کے معاملے سے متعلق از خود نوٹس لیتے ہوئے رجسڑار آفس کو کیس کو 184(3) کے تحت رجسٹر کرنے کا حکم دیا ہے۔
جمعے کو رات گئے جاری کیے گئے حکم نامہ کے مطابق مقدمے کی سماعت کے دوران ممنوعہ بور لائسنس کا معاملہ سامنے آیا۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ عدالت کے استفسار پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ مالک سے لائسنس کے بارے میں تحقیقات نہیں کی گئیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے اسلحہ چوری کے مقدمے میں نامزد ملزم کی ضمانت کے کیس کی سماعت کی تھی۔
17 جنوری کو کیس کی آخری سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’پاکستان سے کلاشنکوف کلچر کو ختم کرنا ہوگا۔ مجھے بھی آفر کی جاتی رہی کہ آپ کلاشنکوف کا لائسنس لیں۔ منشیات اور کلاشنکوف نے پاکستان کو تباہ کر دیا ہے۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے مزید کہا کہ ’جس کے گھر سے اسلحہ چوری ہوا پولیس نے اس سے لائسنس تک کا نہیں پوچھا۔ مالک خود اقرار جرم کر رہا ہے۔ دو کلاشنکوف، دو کالا کوف اور ایک پستول سمیت دیگر قیمتی چیزیں چوری ہوئیں۔ اس طرح کالے شیشے لگا کر بڑی بڑی گاڑیوں میں کلاشنکوف لے کر دنیا میں کہیں کوئی نہیں گھومتا ہے۔‘
چیف جسٹس نے درخواست گزار کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ’آپ کے پاس کلاشنکوف کہاں سے آئی؟ آئی جی ایسے کلاشنکوف کے کاغذ دے رہے ہیں تو کیوں نہ ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے؟ ہم سیکرٹری داخلہ کو لکھ دیتے ہیں کہ تمام کلاشنکوف اور ان کے لائسنس واپس کریں۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’سکول اور بازار جاؤ تو لوگ کلاشنکوف لے کر کھڑے نظر آتے ہیں، ڈرتے ہیں تو گھروں میں رہیں۔ باہر اس لیے نکلتے ہیں کہ لوگوں کو ڈرایا جائے اور اپنا اثر و رسوخ دکھا سکیں۔‘
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’اسلام آباد میں کلاشنکوف لے کر گھروں کے باہر گارڈ کھڑے ہیں، کالے شیشے والی گاڑیوں میں لوگ کلاشنکوف لے کر جاتے ہیں۔ پولیس کو ان سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ کیسے پتہ ہو گا کلاشنکوف والے دہشت گرد تھے یا کوئی اور تھے؟‘
چیف جسٹس نے چوری شدہ اسلحے کے لائسنس کے بارے میں انکوائری میں نہ پوچھنے پر خیبرپختونخوا پولیس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’بغیر لائسنس کا اسلحہ رکھنا جرم ہے اور پولیس نے انکوائری میں مالک سے پوچھا تک نہیں۔‘
سماعت کے دوران عدالت میں ڈپٹی انسپیکٹر جنرل (ڈی آئی جی) مردان کی جانب سے جاری کیا گیا مجوزہ لائسنس عدالت کو دکھایا گیا۔
عدالت نے مختلف سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’کس اختیار کے تحت ڈی آئی جی مردان کی جانب سے ممنوعہ اسلحہ رکھنے کا اجازت نامہ جاری کیا گیا؟ آیا ممنوعہ بور کا لائسنس جاری کیا جا سکتا ہے؟ ممنوعہ اسلحہ کا لائسنس اگر جاری ہو سکتا ہے تو کون کرے گا؟ ممنوعہ اسلحہ کے جاری کردہ لائسنس کی تعداد کیا ہے؟ کیا ممنوعہ بور لائسنس کی آسانی سے دستیابی آئین کے آرٹیکل نو سے مطابقت رکھتی ہے؟‘
بعد ازاں سپریم کورٹ نے معاملہ 184(3) کے زمرے میں آنے کے جائزے کے لیے کمیٹی کو بھجوا دیا۔
عدالت نے اٹارنی جنرل اور ایڈوکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے صوبائی سیکریٹری داخلہ اور انسپیکٹر جنرلز (آئی جیز) سے بھی ایک ماہ میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔
’رواں ہفتے 504 کیسز نمٹائے گئے‘
پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ کوشش کی جا رہی ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو طریقے سے چلایا جائے، اس لیے پرانی شکایات سے آغاز کیا اور مزید ایک سو شکایات کچھ دن پہلے جائزے کے لیے ججز کو بھجوائی گئی ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہفتے کو اسلام آباد میں کورٹ رپورٹرز کی تربیتی ورکشاپ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’معلومات تک رسائی شہریوں کا آئینی حق بن چکا۔ یہ اب محض ہماری مرضی کی بات نہیں۔ صحافیوں کے ذریعے ہی عدالتی معلومات عوام تک پہنچتی ہیں۔ سچائی میں ہی ہماری نجات ہے۔ ہر شہری کا ہدف سچائی ہونا چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چیف جسٹس نے کہا کہ ’17 ستمبر 2023 سے 16 دسمبر 2023 تک کی سہ ماہی رپورٹ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر دی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کتنے مقدمات کا فیصلہ ہوا اور کتنے نئے دائر ہوئے۔ تین ماہ میں پانچ ہزار سے زیادہ مقدمات نمٹائے گئے رپورٹ میں اہم فیصلوں کے لنک بھی موجود ہیں۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ رواں ہفتے 504 مقدمات نمٹائے گئے جب کہ 326 نئے کیسز دائر ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک شہری سپریم کورٹ ملازمین کی معلومات کے لیے سپریم کورٹ آئے تھے۔ رجسٹرار نے اس شہری کی معلومات فراہمی کو چیلنج کر رکھا تھا۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بھی آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تابع ہے۔ اس لیے آئین کے تحت وہ معلومات فراہم کرنے کا حکم بھی دیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ’ہمارے تمام فیصلے ویب سائٹ پر لگا دیے جاتے ہیں جب کہ پہلے آپ سے پوچھا جاتا تھا آپ کو معلومات کیوں چاہییں؟ لیکن اب ادارے کو بتانا ہو گا وہ معلومات کیوں نہیں دینا چاہتا؟‘
اس موقعے پر انہوں نے معلومات تک فراہمی کیس کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے کہا کہ اہم کیسز لائیو دکھایا جا رہے ہیں تاکہ لوگ سمجھیں اور سوال اٹھائیں۔ لوگوں کا حق ہے کہ وہ اختلاف بھی کر سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے تقریب میں سپریم کورٹ کی تین ماہ کی کارکردگی کی رپورٹ جاری کی۔ چیف جسٹس کے بقول: ’اس سے بہتر موقع کیا ہو سکتا تھا ہم صحافیوں کے سامنے ہی اپنا احتساب شروع کریں۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پانچ ہزار تین سو مقدمات نمٹائے۔ عدلیہ کی تاریخ میں پہلی بار ایسی رپورٹ جاری کی جا رہی ہے۔ ہر ہفتے بھی رپورٹ جاری کی جاتی ہے کہ کتنے مقدمات نمٹائے گئے اور کتنے نئے کیسز دائر ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ مانگے بغیر معلومات فراہم کرنے سے شفافیت آتی ہے۔ سپریم کورٹ کے سامنے سے رکاوٹیں بھی ہٹا دی گئی ہیں۔ سپریم کورٹ میں بنیادی حقوق کی ایک یادگار بھی بنا رہے ہیں۔ مانومنٹ تصاویر بنانے کیلئے عوام کیلئے کھلا ہوگا۔ پہلے لوگ سپریم کورٹ کے سامنے سڑک پر کھڑے ہوکر تصاویر بنواتے تھے ۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ جوڈیشل کمیشن میں نامزدگیوں کے لیے کمیٹی کام کر رہی ہے جو جلد ہی اپنا کام مکمل کر لے گی۔
’ہدف ایک ہی ہے کہ اچھے ججز تعینات کیے جائیں جو قانون کو اچھی طرح سمجھتے ہوں۔ ججز ایک دوسرے کو شک سے نہ دیکھیں بلکہ سمجھیں یہ بھی ہاتھ بٹانے آئے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کئی یونیورسٹیوں کے سنڈیکیٹ کا ممبر ہوتا ہے۔ ملک کی تقدیر بدلنے کا یہی طریقہ ہے کہ تعلیمی اداروں کا معیار اچھا کیا جائے۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے بتایا: ’مجھے کسی نے کہا تھا صحافیوں کو حال دل نہ سنایے گا۔ کہا گیا تھا حال دل سنایا تو جس کا جو دل چاہے گا وہ اس زاویے سے لکھے گا۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔