سادہ اکثریت پر دوسری جماعتوں کے ساتھ نظام بہتر کیا جاسکتا ہے: شہباز

لاہور میں غیرملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور ڈیجیٹل میڈیا کے افراد سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ اگر منقسم مینڈیٹ ہو تو مضبوط حکومت بننا مشکل ہوتا ہے۔

مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور صدر شہباز شریف ایک پارٹی اجلاس کے دوران (مسلم لیگ ن ٹوئٹر اکاؤنٹ)

پاکستان کے سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کہا اگر سادہ اکثریت ملی تو دوسری جماعتوں کو ساتھ ملا کر نظام کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔

نامہ نگار ارشد چوہدری نے رپورٹ کیا کہ لاہور میں غیرملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور ڈیجیٹل میڈیا کے افراد سے شہباز شریف نے گفتگو کی اور کہا کہ ’اگر منقسم مینڈیٹ ہو تو مضبوط حکومت بننا مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ کمزور حکومت بڑے فیصلے لیتے ہوئے مشکلات کا سامنا کرتی ہے۔‘

سابق وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماضی کی حکومت نے امریکہ کے ساتھ خوامخواہ کی لڑائی لی اور جھوٹے الزامات لگائے گئے، امریکہ ایک عالمی طاقت ہے، جس کو سب کو ماننا چاہیے۔

’بطور وزیراعظم اِس معاملے کو دیکھا اور نیشنل سکیورٹی کی میٹنگ میں بتایا گیا کہ پاکستان کے خلاف کوئی سازش نہیں ہوئی۔ عمران خان کے دور میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا جنازہ نکالا گیا اور دوست ممالک کے ساتھ تعلقات زمین بوس ہو گئے تھے جنہیں اتحادی حکومت نے مل کر ٹھیک کیا۔‘

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’یہ تاثر درست ہے کہ ہماری مقبولیت میں کمی ہوئی لیکن یہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی کوشش میں ہوا۔ حکومت کا حصہ بننے کا فیصلہ پاکستان کی بہتری کے لیے کیا تا کہ ملک دیوالیہ نہ ہو۔ پی ڈی ایم حکومت کا حصہ بن کر پاکستان کو بچانے کا جہاد کیا۔‘

اُنہوں نے مزید کہا کہ ’اتحادی حکومت میں سب ہی ذمہ دار ہوتے ہیں، جس کے پاس جو محکمہ ہوتا ہے وہی اُس کا جواب دہ ہوتا ہے۔‘

شہباز شریف نے کہا کہ ’اگر ن لیگ کی حکومت قائم ہوتی ہے تو کسی سے کوئی سیاسی انتقام نہیں لیا جائے گا مگر قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔ نواز شریف کے سابق دور میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا یہ رواج دوبارہ عمران خان نے شروع کیا۔‘

مسلم لیگ ن کے صدر کے بقول، ’پاکستان مسلم لیگ ن صرف یہ چاہتی ہے کہ ملک میں صاف شفاف انتخابات ہو، اِس کے بغیر ملک کا پہیہ نہیں چل سکتا۔ سادہ اکثریت وقت کی ضرورت ہے اور جسے اکثریت ملے وہ عوام کے مینڈیٹ کا خیال رکھے۔‘

انہوں نے کہا: ’اگر نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو وہ ہمسایہ ممالک سے امن کی بنیاد پر اچھے تعلقات قائم کریں گے، افغانستان کو بتائیں گے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اُن کے ملک سے ہوتی ہے۔ افغانستان اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانے ختم کرے۔‘

شہباز شریف نے کہا کہ ’ن لیگ کی پالیسی واضح ہے کہ ہم فلسطین اور کشمیر کے حق خود ارادیت کی حمایت کرتے ہیں اور ہمیشہ کرتے رہیں گے۔‘


کوئٹہ میں کوئی جلسہ نہیں ہوسکتا، سکیورٹی خدشات کے باعث دفعہ 144 نافذ

نگران وزیر اطلاعات بلوچستان جان اچک زئی نے جمعے کو کہا کہ کوئٹہ میں اگلے دو ہفتے تھریٹ الرٹ کی وجہ سے جلسے نہیں ہوں گے اور دفعہ 144 نافذ ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ سیکشن 144 کے ساتھ تمام متعلقہ اداروں کو عام شہریوں کی سیکورٹی یقینی بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔  

صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ اجتماعات اور الیکشن ریلیوں کے لیے ڈپٹی کمشنر کوئٹہ سے اجازت لینی ہو گی۔

ڈی سی آفس کوئٹہ سے جاری حکم میں بھی کہا گیا ہے کہ بغیر این او سی شہر میں الیکشن سمیت کسی بھی طرح کی ریلی نکالنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ہتھیاروں کی نمائش پر پابندی کے ساتھ  لاؤڈ سپیکر ایکٹ پر بھی سختی سے عمل درآمد ہوگا۔

سیکشن 144 کے نفاذ کے بعد کوئٹہ ریڈ زون، شہر کی اہم سڑکوں، اجتماعات، دھرنوں، نیشنل ہائی ویز بلاک کرنے، ٹریفک بہاؤ میں رکاوٹ ڈالنے یا پانچ یا زائد افراد کے جمع ہونے پر بھی پابندی رہے گی۔


سپریم کورٹ آف پاکستان نے جمعے کو پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو گجرات کے صوبائی حلقے پی پی 32 سے الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی۔

سپریم کورٹ میں جمعے کو جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے چوہدری پرویز الٰہی کی درخواست پر سماعت کی۔ اس بینچ میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس جمال مندوخیل بھی شامل تھے۔

راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید چوہدری پرویز الٰہی نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کر رکھا تھا۔

سماعت کے دوران پرویز الٰہی کے وکیل فیصل صدیقی نے استدعا کی کہ ’میرے موکل کو پی پی 32 گجرات کی حد تک الیکشن لڑنے کی اجازت دی جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پرویز الٰہی کے وکیل نے کہا کہ ’کاغذات نامزدگی پر یہ اعتراض عائد کیا گیا کہ ہر انتخابی حلقے میں انتخابی خرچ کے لیے الگ الگ اکاؤنٹ نہیں کھولے گئے۔ پرویز الہیٰ پانچ حلقوں سے انتخابات لڑ رہے ہیں۔‘

جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’قانون میں کہاں لکھا ہے کہ پانچ انتخابی حلقوں کے لیے پانچ الگ الگ اکاؤنٹس کھولے جائیں؟‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے الیکشن ایکٹ کی اس انداز میں تشریح کرنی ہے تاکہ لوگ اپنے حق سے محروم نہ ہوں۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’جائیدادیں پوچھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ معلوم ہو امیدوار کے جیتنے سے قبل کتنے اثاثے تھے اور بعد میں کتنے ہوئے۔ آپ پلاٹ کی ملکیت سے انکار کر رہے ہیں تو ٹھیک ہے۔‘

عدالت نے سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کو پرویز الٰہی کا نام بیلٹ پیپرز میں شامل کرنے اور انتخابی نشان الاٹ کرنے کا حکم بھی دیا۔


صنم جاوید، شوکت بسرا کو بھی انتخابات لڑنے کی اجازت

دوسری جانب سپریم کورٹ کے جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے صنم جاوید اور شوکت بسرا کے کاغذات مسترد کیے جانے کے خلاف اپیلوں پر آج سماعت کی۔

جس کے بعد سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں صنم جاوید اور شوکت بسرا کو الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی۔ 

اپنے فیصلے میں عدالت نے الیکشن کمیشن کو صنم جاوید اور شوکت بسرا کے نام بیلٹ پیپر میں شامل کرنے کا حکم دے دیا۔

پی ٹی آئی کی امیدوار صنم جاوید این اے 119,120 اور پی پی 150سے امیدوار ہیں جبکہ شوکت بسرا این اے 163 بہاولنگر سے امیدوار ہیں۔


الیکشن کمیشن نے ریٹرننگ افسران کو مجسٹریٹ کے اختیارات دے دیے

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جمعے کو ایک نوٹیفیکشن کے ذریعے ریٹرننگ افسران (آر اوز) اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران (ڈی آر اووز) کو مجسٹریٹ درجہ اول کے اختیارات تفویض کر دیے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفیکشن میں کہا گیا کہ ’آٹھ فروری 2024 کے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور ریٹرننگ افسران کو کوڈ آف کریمنل پروسیجر 1988 کے تحت درجہ اول مجسٹریٹ کے اختیارات دے دیے ہیں۔‘

نوٹیفیکیشن کے مطابق یہ افسران الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 169، 171 اور 174 کے تحت ان اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کسی بھی خلاف ورزی کے خلاف کارروائی کر سکیں گے۔‘


بلوچستان: غیرحاضر پولنگ عملے کے خلاف الیکشن کمیشن کی کارروائی

صوبائی الیکشن کمشنر بلوچستان کے مطابق پولنگ عملے کی تربیت کے دوران غیر حاضری کے واقعات میں اضافے پر محکمانہ کاروائی کا آغاز کردیا گیا ہے۔

صوبائی الیکشن کمشنر محمد فرید آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کے نمائندے اعظم الفت کو جمعے کو بتایا کہ تمام ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران (ڈی آر اوز) کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں کہ تربیت کے دوران غیر حاضر رہنے والے ملازمین کی فوری معطلی اور ان کے خلاف ضابطے کی سخت ترین کاروائی یقینی بنائی جائے۔

انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کے اضلاع کچھی کے 15، ضلع خضدار کے 107، ضلع اوستہ محمد کے سات، ضلع قلعہ سیف اللہ کے 70 اور ضلع چمن کے 27 پولنگ عملے کی ٹریننگ سے غیر حاضری پر محکمانہ کاروائی کا آغار کر دیا گیا ہے۔

صوبائی الیکشن کمشنر بلوچستان کے مطابق پولنگ عملے کی تربیت کے دوران غیر حاضر رہنے والے عملے اور سٹاف کے خلاف سخت کاروائی کا سلسلہ جاری رہے گا تاکہ پولنگ سٹاف کی تربیت کے دوران حاضری کو یقینی بنایا جائے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست