وائٹ ہاؤس نے پیر کو صدر جو بائیڈن کے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ واشنگٹن گذشتہ ہفتے اردن میں امریکی اڈے پر ہونے والے جان لیوا حملے کا جواب دے گا۔
دوسری جانب اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی میں تعطل لانے کے لیے مذاکرات کو آگے بڑھانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔
قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے وائٹ ہاؤس میں پریس بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ اس بات کی ’کوئی وجہ نہیں‘ ہے کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز سمیت امریکی مذاکرات کاروں کی جانب سے پیرس میں اسرائیلی، مصری اور قطری حکام کے ساتھ مذاکرات میں عسکریت پسندوں کے ڈرون حملے کی وجہ سے رکاوٹ پیدا ہوگی۔
حال ہی میں ہونے والے ان حملوں میں تین امریکی فوجی مارے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔
صدر جو بائیڈن نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ اس حملے کا ’لازمی جواب دے گا،‘ جس کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایران کی جانب سے کشیدگی بڑھانے اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو نقصان پہنچانے کی مہم کا حصہ ہے۔
جان کربی نے کہا کہ امریکہ کے کسی بھی ردعمل میں اس بات پر غور نہیں کیا جانا چاہیے کہ مذاکرات کا کیا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا: ’گذشتہ ہفتے جو کچھ ہوا اس کے جواب میں ہمارے ردعمل سے معاہدے پر ہمارا کام متاثر ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا: ’ہم اب بھی قیدیوں کے اس معاہدے پر کام جاری رکھنا چاہتے ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ اس وقت کوئی ’فوری معاہدہ‘ نہیں ہوا، لیکن امریکہ کو لگتا ہے کہ بات چیت ’اچھی سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔‘
اطلاعات کے مطابق امریکی قیادت میں ہونے والے مذاکرات اسرائیلی اور حماس کے رہنماؤں کو ایک ایسے معاہدے کے قریب لے آئے ہیں جس کے تحت اسرائیل غزہ کی پٹی میں تقریباً دو ماہ تک جارحیت روک دے گا اور حماس سات اکتوبر کے بعد سے قیدی بنائے گئے 100 سے زائد افراد کو رہا کرے گا۔
سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر کیے گئے حملے میں ایک ہزار سے زائد اسرائیلی مارے گئے تھے۔ اس حملے کے بعد شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 26 ہزار سے زائد فلسطینی جان سے جاچکے ہیں۔
جو بائیڈن نے اپنی انتظامیہ کے اعلیٰ سفیروں بشمول ولیم برنز اور مشرق وسطیٰ کے سفیر بریٹ میک گرک کو مصر اور قطر کے حکام سے بات چیت کے لیے کئی بار خطے میں بھیجا ہے جو امریکہ، اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالث کا کردار ادا کر چکے ہیں۔
گذشتہ ہفتے امریکی صدر نے مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی اور قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن آل ثانی سے قیدیوں کی رہائی کی کوششوں میں ان ممالک کے کردار کے بارے میں ان رہنماؤں سے الگ الگ بات چیت کی تھی۔
ہفتے کے آخر میں اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے کہا تھا کہ ان کی حکومت اب بھی ان قیدیوں کی رہائی کے لیے پرعزم ہے جنہیں نومبر میں سیزفائر کے دوران رہا نہیں کیا گیا تھا۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا: ’آج تک، ہم نے اپنے 110 قیدیوں کو واپس لائے ہیں اور ہم ان سب کو گھر واپس لانے کے لیے پرعزم ہیں۔ ہم اس سب سے نمٹ رہے ہیں اور ہم 24 گھنٹے ایسا کر رہے ہیں۔‘
سات اکتوبر کے حملوں کے دوران قیدی بنائے گئے افراد کی رہائی سے متعلق جاری مذاکرات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب صدر جو بائیڈن اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ تین امریکی فوجیوں کی موت کا جواب کیسے دیا جائے، جو 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد کسی جنگ زدہ علاقے میں مرنے والے پہلے امریکی فوجی ہیں۔
ایران کی جانب سے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کے بارے میں پوچھے جانے پر جان کربی نے کہا کہ وہ ’انٹیلی جنس کے جائزے میں نہیں پڑیں گے۔‘
انہوں نے، اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ایرانی حکومت ’واضح طور پر‘ ان عسکریت پسند گروہوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے، جو بحیرہ احمر میں امریکی اڈوں، بحری جہازوں اور بین الاقوامی تجارتی جہازوں پر حملے کر رہے ہیں، کہا: ’واضح طور پر، ایک ذمہ داری ہے جو تہران میں رہنماؤں پر ڈالی جانی چاہیے۔‘
تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جو بائیڈن حملوں کے ردعمل کے بارے میں اپنی قومی سلامتی کی ٹیم کے ساتھ مشاورت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’وہ کل اور آج قومی سلامتی کی ٹیم سے دو بار ملاقات کر چکے ہیں۔ وہ اپنے سامنے موجود آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے کل کہا کہ ہم جواب دیں گے، ہم اپنے شیڈول اور اپنے وقت پر ایسا کریں گے اور ہم کمانڈر ان چیف کی حیثیت سے صدر کے منتخب کردہ انداز میں ایسا کریں گے۔ ہم اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ رہیں گے کہ تہران کی پشت پناہی سے چلنے والے ان گروہوں نے امریکی فوجیوں کی جانیں لی ہیں۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
© The Independent