سائفر کیس: عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید کی سزا

خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین و سابق وزیراعظم عمران خان اور پارٹی کے وائس چیئرمین و سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید کی سزا سنا دی۔

29 اکتوبر 2022 کی اس تصویر میں سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی لاہور میں ایک لانگ مارچ کے دوران (اے ایف پی)

خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین و سابق وزیراعظم عمران خان اور پارٹی کے وائس چیئرمین و سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو منگل کو 10، 10 سال قید کی سزا سنا دی۔

پیر (26 جنوری) کو عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی طویل ترین سماعت ہوئی تھی، جو 12 گھنٹوں پر محیط تھی اور رات گئے ختم ہوئی۔ سماعت کے دوران کیس میں مزید 11 گواہان کے بیانات پر جرح مکمل کی گئی۔ 

سائفر کیس میں مجموعی طور پر تمام 25 گواہان کے بیانات قلم بند کیے گئے اور ان پر جرح کی گئی۔ 

گواہان پر جرح کے بعد ملزمان کے 342 کے بیانات ریکارڈ کرنے کے لیے سوالنامے گذشتہ شب  تیار کیے گئے جو آج دونوں ملزمان کو دیے گئے اور بیان ریکارڈ کیے گئے۔ 

بیانات ریکارڈ کرنے کے بعد  سرکاری دفاعی وکلا اور استغاثہ نے حتمی دلائل دیے، جس کے بعد خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید کی سزا سنا دی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

342 کا بیان ریکارڈ ہونے کے بعد خصوصی عدالت کے جج نے سزا سنانے سے پہلے عمران خان سے پوچھا کہ ’عمران خان صاحب سائفر کہاں گیا؟‘

جس پر عمران خان نے جواب دیا: ’میں نے اپنے بیان میں لکھوا دیا ہے، وزیراعظم آفس کی سکیورٹی ذمہ داری میری نہیں تھی، سائفر میرے پاس نہیں ہے۔‘

خصوصی عدالت کے فیصلے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر عمران خان کی آج کی دائر درخواست غیر موثر ہوگئی، جس میں انہوں نے سرکاری وکیل دفاع مقرر ہونے کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔

عمران خان کی بہن علیمہ خان نے خصوصی عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

فیصلے کے بعد احاطہ عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو میں علیمہ خان نے عدالتی نظام اور فیصلہ سنانے والے جج پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’آٹھ فروری کو 100 فیصد لوگ ووٹ ڈالیں، اس سے بہتر انتقام کوئی نہیں۔‘

اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف نے پارٹی کے بانی چیئرمین اور وائس چیئرمین کو خصوصی عدالت کی جانب سے سائفر کیس میں سنائی گئی سزا کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیا۔

ایکس پر ایک بیان میں پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ’اس سے بڑا مذاق کیا ہو گا کہ بیرونی سازش کو بے نقاب کرنے پر پاکستان نے اپنے وزیراعظم اور وزیر خارجہ کو قید کر رکھا ہے۔‘

 

’جیسے ہی اسے اقتدار جاتا نظر آیا اس نے پاکستان پر حملہ کیا‘

مسلم لیگ ن کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم نواز شریف ایک انتخابی جلسے میں خطاب کے دوران عمران خان کے خلاف آنے والے عدالتی فیصلے پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ شخص (عمران خان) جیسے ہی اسے اقتدار جاتا نظر آیا اس نے پاکستان پر حملہ کیا۔ اس کا نتیجہ دیکھیں جو آج عدالت میں آیا۔‘

ہارون آباد میں منگل کو جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ ’ایک نئی بڑی خبر سنی آپ نے، میں بتاتا ہوں۔ مجھ پر تو بڑے بڑے ظلم و جبر ہوئے، سب کچھ سہنے کے باوجود میں نے کوئی قومی راز فاش نہیں کیا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’آج وہی چپ کر کے استعفیٰ دے کر گھر جا رہے ہیں جو میرے اوپر مانٹیٹرنگ ڈیسک لگے تھے۔ وہ اس لیے جا رہے ہیں کیونکہ ان کو پتا ہے ہم نے بہت برے کرتوت کیے ہوئے ہیں۔ چور کی داڑھی میں تنکا ہے، دال میں کالا ہے۔‘

امریکی سائفر کا معاملہ کیا ہے؟

سابق وزیراعظم عمران خان نے 27 مارچ 2022 کو اپنی حکومت کے خاتمے سے قبل اسلام آباد میں ایک جلسہ عام میں ایک خط (سائفر) لہراتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ایک غیر ملکی حکومت کی طرف سے لکھا گیا ہے جس میں ان کی حکومت ختم کرنے کی منصوبہ بندی ظاہر ہوتی ہے۔

سائفر ایک سفارتی سرکاری دستاویز کے طور پر جانا جاتا ہے۔ عمران خان کے خلاف یہ کیس اس بنیاد پر بنایا گیا کہ انہوں نے 2022 میں امریکہ میں اس وقت تعینات پاکستان کے سابق سفارت کار اسد مجید کی طرف سے بھیجے گئے سفارتی مراسلے کے مواد کو افشا کیا۔

واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان سفارتی خط و کتابت یعنی سائفر سے متعلق عمران خان کا کہنا تھا کہ اپریل 2022 میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور بطور وزیراعظم بے دخلی امریکی سازش کا حصہ تھی۔

امریکی حکام اس کی بارہا تردید کر چکے ہیں جبکہ پاکستانی حکومت بھی کہہ چکی ہے کہ ایسے شواہد نہیں ملے ہیں کہ پاکستان کے خلاف امریکہ نے کسی طرح کی سازش کی ہو۔

بعدازاں عمران خان کے خلاف امریکی سائفر کو عام کرنے کے جرم میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اڈیالہ جیل میں قائم کی گئی خصوصی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔

حکومت کی طرف سے جیل میں مقدمہ چلانے کی وجہ عمران خان کی زندگی کو سنجیدہ نوعیت کے سکیورٹی خدشات بتائے گئے تھے۔

29 اگست 2023 کو سائفر کیس میں عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے لیکن وہ گرفتاری سے قبل توشہ خانہ کیس میں سزا یافتہ ہونے پر اٹک جیل میں زیر حراست تھے اور ان سے اٹک جیل میں ہی سائفر کیس کی تفتیش کی گئی اور ابتدائی طور پر خصوصی عدالت اٹک جیل میں جا کر سماعت کرتی رہی۔ توشہ خانہ میں سزا معطلی کے باوجود سائفر کی وجہ سے وہ اٹک جیل میں ہی رہے۔ 

عمران خان کی درخواست پر بعد ازاں انہیں اٹک جیل سے اڈیالہ منتقل کیا گیا اور خصوصی عدالت اڈیالہ جیل جا کر سماعت کرتی رہی۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان