اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعرات کو بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے خلاف امریکی سائفر کیس کی سماعت پر حکم امتناع ختم کر دیا ہے اور اٹارنی جنرل نے ان کیمرا عدالتی کارروائی کو از سر نو کھلی عدالت میں کرنے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے جمعرات کو بانی پی ٹی آئی کی سائفر کیس کے اِن کیمرہ ٹرائل کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر سلمان اکرم راجہ عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ ’ہم نے سائفر کیس سے متعلق دستاویزات طلب کی تھیں وہ کدھر ہیں؟‘
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ’ریکارڈ آ چکا ہے، صرف نمبرنگ ہو رہی ہے، کچھ دیر میں پیش کردیں گے۔‘
بیرسٹر سلمان اکرم راجہ نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کیمرا عدالتی کارروائی سے متعلق ٹرائل کورٹ کے 14 دسمبر 2023 کے آرڈر کے بعد کی کارروائی کالعدم قرار دی جائے کیوں کہ انہوں نے خود تسلیم کر لیا ہے کہ 14 دسمبر 2023 کا حکم درست نہیں تھا۔‘
عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ اسے دیکھ لیں۔ اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ ان کیمرا کارروائی کو از سر نو کیا جائے گا۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت نے سائفر کیس کی سماعت کو ان کیمرا قرار دیا تھا جس حکم کو بانی پی ٹی آئی عمران خان نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
سائفر کیس: اب تک کیا ہوا؟
عمران خان کو سائفر کیس میں 15 اگست 2023 جبکہ شاہ محمود قریشی کو 20 اگست 2023 کو گرفتار کیا گیا تھا۔
سائفر کیس میں گرفتاری سے قبل عمران خان توشہ خانہ کیس میں اٹک جیل میں زیر حراست تھے۔
جب سائفر کیس میں وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تو اٹک جیل میں ہی ان سے سائفر کیس کی تفتیش کی گئی اور ابتدائی طور پر خصوصی عدالت اٹک جیل میں جا کر سماعت کرتی رہی۔
توشہ خانہ میں سزا معطلی کے باوجود سائفر کیس کی وجہ سے وہ اٹک جیل میں ہی قید رہے۔ عمران خان کی درخواست پر انہیں بعد ازاں اٹک جیل سے اڈیالہ منتقل کیا گیا اور خصوصی عدالت اڈیالہ جیل جا کر سماعت کرتی رہی۔
سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پر گذشتہ ماہ 23 اکتوبر کو اس کیس میں فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
اس کے بعد 27 اکتوبر کو سرکاری گواہ طلب کیے گئے لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کے باعث کارروائی آگے نہ بڑھ سکی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پھر 31 اکتوبر کی تاریخ طے ہوئی جس میں 10 گواہوں کو پیش کیا گیا لیکن بیانات قلمبند نہ کیے جاسکے۔
سات نومبر کو عدالت نے تین گواہوں کے بیان قلمبند کیے اور جرح ہوئی جبکہ 14 نومبر کو دو گواہوں کے بیان قلمبند ہوئے جبکہ ایک پر جرح ہوئی، جس کے بعد کیس کی کارروائی اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر روک دی گئی۔
بعد ازاں 21 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے قانونی تقاضے پورے نہ ہونے پر جیل ٹرائل کی کارروائی کالعدم قرار دیتے ہوئے قانونی تقاضوں کے ساتھ ازسرنو ٹرائل کا حکم دیا تھا، جس کے بعد خصوصی عدالت نے جیل ٹرائل کے قانونی تقاضے پورے کیے اور اڈیالہ جیل میں ٹرائل کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا۔
13 دسمبر 2023 کو خصوصی عدالت نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سابق عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر سائفر کیس میں ایک بار پھر فرد جرم عائد کی تھی۔
22 دسمبر 2023 کو سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور کی تھی۔
عدالت عظمیٰ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت 10، 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض منطور کی تھی۔
امریکی سائفر کا معاملہ کیا ہے؟
عمران خان نے 27 مارچ 2022 میں اپنی حکومت کے خاتمے سے قبل اسلام آباد میں ایک جلسہ عام میں ایک خط (سائفر) لہراتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ایک غیر ملکی حکومت کی طرف سے لکھا گیا ہے جس میں ان کی حکومت ختم کرنے کی منصوبہ بندی ظاہر ہوتی ہے۔
سائفر ایک سفارتی سرکاری دستاویز کے طور پر جانا جاتا ہے۔ عمران خان کے خلاف یہ کیس اس بنیاد پر بنایا گیا کہ انہوں نے 2022 میں امریکہ میں اس وقت تعینات پاکستان کے سابق سفارت کار اسد مجید کی طرف سے بھیجے گئے سفارتی مراسلے کے مواد کو افشا کیا۔
واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان سفارتی خط و کتابت یعنی سائفر سے متعلق عمران خان کا کہنا تھا کہ اپریل 2022 میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور بطور وزیراعظم بے دخلی امریکی سازش کا حصہ تھی۔
امریکی حکام اس کی بارہا تردید کر چکے ہیں جبکہ پاکستانی حکومت بھی کہہ چکی ہے کہ ایسے شواہد نہیں ملے ہیں کہ پاکستان کے خلاف امریکہ نے کسی طرح کی سازش کی ہو۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔