آفیشل سیکرٹ ایکٹ خصوصی عدالت کے سائفر کیس میں میڈیا کو کوریج سے روکنے کے فیصلے پر سیاسی مبصرین اور قانونی ماہرین کو خدشات ہیں کہ یہ اقدامات میڈیا کی آزادی اور ٹرائل دونوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
خصوصی عدالت کی جانب سے جمعرات کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ سائفر کیس کی آئندہ سماعت ان کیمرہ کر دی گئی اور میڈیا کو اس کی کوریج کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
عدالت کی جانب سے یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب پاکستان میں آئندہ انتخابات اگلے دو ماہ میں متوقع ہیں اور ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے بانی سربراہ عمران خان سمیت پارٹی کے متعدد رہنما جیل میں قید ہیں۔
سیاسی مبصرین کی جانب سے جہاں ’میڈیا کوریج پر ایسی پابندیاں منصفانہ ٹرائل کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتیں‘ وہیں دوسری جانب قانونی ماہرین بھی اسی بات کی تائید کرتے نظر آ رہے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے مختلف سیاسی اور قانونی تجزیہ کاروں سے بات کی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ سائفر کیس کی سماعت ان کیمرا کرنے کے کیا قانونی نتائج ہو سکتے ہیں؟ کیا تاریخ میں پہلی مرتبہ میڈیا کو کسی کیس کی کوریج کرنے سے روکا گیا ہے؟
صحافی ندیم ملک نے سائفر کیس کی کارروائی نشر یا شائع کرنے پر پابندی کو انصاف کے تقاضوں کے منافی اقدام قرار دیا ہے۔
ندیم ملک نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کیس کی سماعت کھلی عدالت میں ہے اور میڈیا نمائندگان کو نہ صرف اسے رپورٹ کرنے بلکہ مکمل سچائی کے ساتھ پوری کارروائی رپورٹ کرنے کی بھی اجازت ہونی چاہیے۔
’بند کمروں اور جیل کی دیواروں کے پیچھے کیے گئے کسی فیصلے کی عوامی قبولیت مشکل ہے، اس کے گہرے سیاسی اثرات ہوں گے، سیاسی پولرائزیشن کی فضا مزید خراب ہوگی اور نظام کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔‘
انہوں نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’جہاں ایک طرف بھٹو کے عدالتی قتل اور نواز شریف کو سزا دلوانے کے لیے جسٹس شوکت عزیز صدیقی سے نا انصافی کا مقدمہ چل رہا ہے کہ ماضی کے دھبے کیسے صاف کیے جائیں، اس میں ایک مزید کیس کا اضافہ بہت نقصان دہ ہوگا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
27 اپریل 2022 کو عمران خان نے اسلام آباد میں منعقد جلسے میں ایک مبینہ خط لہرایا تھا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ’خط ایک امریکی سفیر کی جانب سے لکھا گیا جس کا مقصد امریکی ایما پر ان کی حکومت کو گرانا تھا جس میں اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں نے اہم کردار ادا کیا۔‘
’ان کیمرہ ٹرائل کا اعلان کرنا لوگوں کو جاننے کے حق سے محروم کر رہا ہے۔‘
صحافی مظہر عباس نے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کے تحت میڈیا پر کوئی خبر نشر کرنے اور چھاپنے پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی جو عوام کے مفاد میں ہو۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ یہ میڈیا کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ حقائق پر مبنی خبروں کو رپورٹ کرے اور عوام کو آگاہ کرے۔
’سابق وزیر اعظم عمران خان کا کیس عوامی اہمیت کا حامل ہے اور ایک مقبول رہنما اور سابق وزیر اعظم کے کیس کو ان کیمرہ ٹرائل کا اعلان کرنا لوگوں کو جاننے کے حق سے محروم کر رہا ہے۔‘
رواں سال 23 فروری کو اس وقت کے جسٹس اور موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی نے سائفر کی تحقیقات سے متعلق دائر درخواستوں پر اپنے چیمبر میں سماعت کی تھی جہاں انہوں نے اس معاملے پر ریمارکس دیے۔
قاضی فائز عیسی نے کہا تھا کہ ’سائفر کی تحقیقات کروانا ہمارا نہیں حکومت کا کام ہے، نہ عدالت کو ایگزیکٹو نہ ہی ایگزیکٹو کو عدالت کے اختیارات میں مداخلت کرنی چاہیے۔ اس وقت کے وزیراعظم چاہتے تو خود تحقیقات سے متعلق کوئی حکم جاری کر سکتے تھے لیکن انہوں نے نہیں کیا، آپ چاہتے ہیں میں اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایگزیکٹو کے اختیارات میں مداخلت کروں؟‘
’پابندی پاکستان کو سول مارشل لا کی طرف دھکیل سکتی ہے۔‘
صحافی حامد میر نے بھی سائفر کیس کی میڈیا کوریج پر پابندی کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا یہ پابندی آئین پاکستان کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کی خلاف ورزی ہے۔
’تمام سیاسی جماعتوں، انسانی حقوق کے اداروں اور وکلا فورمز کو اس پابندی کو مسترد کرنا چاہیے کیونکہ یہ پابندی پاکستان کو سول مارشل لا کی طرف دھکیل سکتی ہے۔‘
صحافی ماجد نظامی نے ماضی میں دیگر کیسز میں میڈیا کوریج پر پابندی سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے بھی عدلیہ، انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ کئی متنازع فیصلے کر چکی ہے جو بعد میں غلط ثابت ہوئے اور تنقید کا نشانہ بنے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ایک سابق منتخب وزیراعظم پر قائم مقدمے کی کارروائی میں ’شفافیت ہونا از حد لازم ہے ورنہ ایسے فیصلوں سے انتقام کا تاثر مزید بڑھے گا اور ان مقدمات پر سنانے جانے والے فیصلے بھی متنازع ہوں گے۔‘
ماجد نظامی نے کہا: ’جب سیاسی رہنماؤں پر بننے والے مقدمات میں انتقام شامل ہو جائے تو اس بات سے قطع نظر کہ مقدمات میں کتنی سچائی ہے، وہ اپنی حیثیت کھو بیٹھتے ہیں۔ ایسا چیزوں کو سائیڈ لائن کرنے اور سنسنی پھیلانے کے لیے کیا جاتا ہے۔‘
13 دسمبر 2023 کو پی ٹی آئی کے بانی رہنما عمران خان اور پارٹی رہنما شاہ محمود قریشی کے خلاف فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
یہ فرد جرم تین مختلف الزامات کے تحت سنائی گئی جس میں کہا گیا کہ عمران خان نے بطور وزیر اعظم اور شاہ محمود قریشی نے بطور وزیر خارجہ سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی۔
قانونی ماہر احسن بھون نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ماضی میں متعدد کیسز کی کوریج کرنے سے میڈیا کو روکا جا چکا ہے۔
’اگر ٹرائل اوپن ہو رہا ہے تو میرے خیال سے میڈیا کو کوریج سے روکنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ یہ عمل بنیادی حقوق کے منافی بھی ہے اور فریڈم آف انفارمیشن کی موجودگی میں یہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟‘
احسن بھون نے کہا جب اس کیس کی تقریبا مکمل تفصیلات سب جانتے ہیں اور سابق وزیر اعظم نے بھی اسے استعمال کیا، امریکی و پاکستانی حکومت اس پر بیان بھی دے چکی ہے اور سب کچھ پبلک بھی ہے، تو عوام کو حقیقت جاننے کی بھی اجازت دی جانی چاہیے۔
’اس معاملے کے قانونی اثرات نہیں کیونکہ یہ عمل تمام چیزوں کو سائیڈ لائن کرنے کے لیے ہوتے ہیں اور سنسنی پھیلانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں: https://whatsapp.com/channel/0029VaBsPzJ2ER6hrUL1sM0P