پاکستان مسلم لیگ ن نے جمعے کی شام لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں پارٹی کے مرکزی دفتر میں الیکشن کی ’جیت‘ کا جشن منانے اور نواز شریف کی تقریر کا اعلان کر رکھا تھا۔
گذشتہ روز ہونے والے الیکشن کے نتائج میں تاخیر اور قومی و صوبائی اسمبلیوں میں برتری واضح نہ ہونے پر پارٹی رہنما اور کارکن شش و پنج میں مبتلا تھے۔
ہم آج شام چار بجے ن لیگ کے دفتر پہنچے تو اندر چند صحافی اور گنتی کے کارکن موجود تھے۔ تاہم دیکھتے ہی دیکھتے لاہور کے مختلف حلقوں سے کامیاب امیدوار اپنے حامیوں کے ساتھ پہنچنا شروع ہوگئے۔
سب سے زیادہ پرجوش استقبال عطا تارڑ کا کیا گیا۔ انہیں کارکنوں نے کندھوں پر بٹھا کر گیٹ کے اندر داخل کیا۔
شام سات بجے تک کافی کارکن جمع ہوگئے مگر 2013 جتنا رش دکھائی نہیں دیا، کارکن زیادہ پرجوش نہیں تھے۔
وہاں موجود پارٹی رہنما کنفیوز دکھائی دے رہے تھے۔ ہر کوئی یہی سوال کرتا دکھائی دیا کہ ’ابھی تک ن لیگ کو اتنی نشستیں نہیں مل سکیں کہ سادہ اکثریت سے حکومت بنا لے؟‘
کئی کارکن شکوہ کرتا دکھائی دیے کہ ’ن لیگ کے بیشتر امیدواروں کے ہارنے کی وجہ متاثر کن مہم نہ چلانا تھی۔
’حالات ایسے نہیں تھے کہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار اتنی تعداد میں جیت پاتے۔ وجہ یہی ہے ہمارے ووٹرز نہیں نکلے کہ ہم تو جیتے ہوئے ہیں۔‘
آٹھ بجے کے قریب اچانک ہلچل دکھائی دی، گیٹ کھلا اور نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز کے ساتھ گاڑی میں داخل ہوئے۔
ان کی گاڑی پر کارکنوں نے پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں، نعرے بازی شروع ہو گئی اور کارکن گاڑی کے گرد جمع ہو گئے۔
مشکل سے گاڑی دفتر کے پچھلے حصے تک پہنچی اور نواز شریف دیگر رہنماؤں کے ساتھ دفتر میں چلے گئے۔
میڈیا کے کیمرے وہیں لگے تھے جہاں نواز شریف نے خطاب کرنا تھا۔ اس دوران جیت کا جشن آتش بازی اور نعروں سمیت مسلسل ہوتا رہا لیکن مٹھائی کے دو ڈبے تھے جو اندر دفتر میں ہی جاتے دکھائی دیے۔
کارکنوں کے لیے گذشتہ روز کھانے کا اہتمام تھا مگر آج مٹھائی بھی تقسیم نہیں ہوئی۔
نواز شریف کے خطاب سے پہلے صحافی ن لیگی رہنما اعظم نذیر تارڑ سے پوچھتے رہے کہ وہ کیا اعلان کر سکتے ہیں لیکن انہوں نے جواب دیا کہ وہ مشاورت کے بعد ہی کوئی اعلان کریں گے۔ نتائج کے مطابق تو دوسری جماعتوں کو ساتھ ملانے کی بات ہی کریں گے۔
اتنی دیر میں نواز شریف باہر آ گئے، دیگر قیادت بھی ان کے ساتھ تھی۔ وہ کافی مطمئن دکھائی دیے اور آتش بازی دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا۔
ان کے خطاب میں سخت گفتگو نہین تھی بلکہ وہ مل جل کر ملکی مسائل حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے رہے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ ’ہم نتائج کے مطابق وفاق اور پنجاب میں سب سے زیادہ نشستیں لینے والی واحد پارٹی ہیں، ہم آزاد اراکین اور دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر مضبوط حکومت بنائیں گے۔‘
یہ اعلان سنتے ہی ن لیگی کارکنوں کا جوش دوگنا ہو گیا اور وہ شدید نعرے بازی کرنے لگے ’وزیر اعظم نواز شریف۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نواز شریف نے کامیاب ہونے والے امیدواروں کو مبارک باد دی اور اس کامیابی پر کارکنوں اور ووٹرز کا شکریہ ادا کیا۔
خطاب ختم ہوا تو گیراج کی چھت، جسے سٹیج بنایا ہوا تھا، وہاں سے ن لیگ کے مقامی رہنما نے پانچ، پانچ سو روپے کے نوٹ پھینک کر خوشی کا اظہار کیا تو کارکن نوٹوں پر جھپٹ پڑے۔
اسی دوران ایک کونے پر کھڑی خاتون نے معصومیت سے سوال کیا کہ ’میاں صاحب جیت گئے؟‘
ہم نے پوچھا: ’آپ کہاں سے آئی ہیں اور کیا جیت کا جشن منانے نہیں آئیں؟‘
کہنے لگیں ’بھاٹی گیٹ سے آئی ہوں اور میں نے معذور جوان بیٹے کے ساتھ شیر کو ووٹ ڈالا ہے۔ یہاں یہی سننے آئی تھی کہ کیا نواز شریف وزیر اعظم بنیں گے یا نہیں کیونکہ ٹی وی پر تو پتہ ہی نہیں چل رہا کہ وہ حکومت بنا سکیں گے یا کوئی اور بنائے گا۔‘
کارکنوں کی بڑی تعداد نواز شریف سے ملاقات کی خواہش لیے دفتر کے دروازے کھلوانے کی کوشش کرتی رہی لیکن سکیورٹی گارڈز نے اندر جانے کی اجازت نہ دی۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔