’میں پاکستان کی پہلی ویمن امپائر ہوں اور یہ ایک ایسا اعزاز ہے جسے مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔‘
حمیرا فرح گذشتہ 14 برس سے پاکستان کی پہلی ویمن امپائر ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’میں شکر گزار ہوں کہ یہ اعزاز میرے حصہ میں آیا۔ میں پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کا ایک حصہ ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ میں ڈائریکٹر سپورٹس لاہور گیریژن یونیورسٹی میں کام بھی کر رہی ہوں۔
حمیرا کہتی ہیں کہ وہ بچپن سے ہی مختلف کھیلوں کی شوقین تھیں۔ ’سکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح تک کوئی ایسا کھیل نہیں تھا جو میں نے نہ کھیلا ہوں اور میں اس کی ماہر نہ ہوں۔ لیکن میں نے پیشے کے طور پر کرکٹ اور ہاکی کو چنا۔ پاکستان ریلویز کی جانب سے نیشنل لیول تک ہاکی کھیلی۔ اسی طرح کرکٹ میں بھی قومی سطح پر کھیلتی تھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حمیرا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 2005 میں پی سی بی نے پاکستان ویمن کرکٹ ونگ متعارف کروایا، جس کے بارے میں انہیں ان کی دوست شمسہ ہاشمی نے بتایا، جو ویمن ونگ کی چیئر پرسن بھی رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’میری خوشی کی انتہا نہ رہی، جب میری سلیکشن ہوئی۔ شروع میں، میں نے ایک آفیشل کے طور پر کام کیا اور پھر امپائرنگ کورس متعارف ہوا تو میں نے بغیر سوچے سمجھے اس میں داخلہ لے لیا اور قسمت آزمانے کی سوچی۔ میں نے دونوں انڈکشن کورس کیے اور ان میں کامیاب بھی ہوئی اور 2005 میں ہی کوئٹہ کے بگٹی سٹیڈیم میں ٹرائی اینگولر سیریز میں میچ کی امپائرنگ کی۔‘
حمیرا نے بتایا: ’میرے ساتھ دو اور امپائرز بھی تھیں لیکن انہوں نے اسے پیشہ کے طور پر نہیں اپنایا۔ اس وقت میں سب سے سینئیر ویمن امپائر ہوں اور 170 ویمن فرسٹ کلاس میچز میں امپائرنگ کے فرائض انجام دے چکی ہوں۔‘
شادی کے ایک برس بعد ہی شوہر سے علیحدگی اور ایک بچے کے ساتھ نے بھی حمیرہ کے حوصلے پست نہیں کیے۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے دوبارہ شادی نہیں کی اور شاید یہی قسمت میں لکھا تھا ورنہ آج وہ شاید گھر گرہستی سنبھال رہی ہوتیں اور ان کی یہ پہچان نہ ہوتی جو آج ہے۔
مکمل ویڈیو یہاں دیکھیے:
انہوں نے بتایا: ’میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، میری زندگی کھیل کے میدان میں ہی گزری ہے۔ پہلے خود کھیلتی تھی اب دوسروں کو کھلاتی ہوں۔ میں نے کبھی اپنے پیشے کو نوکری کے طور پر نہیں لیا بلکہ ہمیشہ میں نے اسے شوق اور دل سے کیا۔‘
بقول حمیرا: ’میں اپنے خاندان میں پہلی خاتون تھی جو کھیل کے میدان میں آئی۔ میرے والد میرے بچپن میں ہی دنیا سے چلے گئے تھے تو والدہ بچوں کے لیے زیادہ فکر مند رہتی تھیں لیکن انہوں نے مجھے کبھی کسی بھی چیز سے نہیں روکا۔ ہاں یہ ضرور بتایا کہ چادر اور چار دیواری کا خیال رکھتے ہوئے میں کسی بھی کھیل میں جاسکتی ہوں اور میں نے وہی کیا۔‘
حمیرا کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے کھیل کے میدان میں قدم رکھا تو چیزیں بہت مختلف تھیں، لڑکیوں کو ایک کھلاڑی کے طور پر قبول نہیں کیا جاتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ سکول جایا کرتی تھیں تو اپنی کِٹ اور ہاکی یا بیٹ اپنے کتابوں والے بستے میں چھپا کر لے جایا کرتی تھیں، مگر اب ان کے خیال میں وقت تبدیل ہو گیا ہے اور موجودہ نسل کے لیے بہت سے آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب کوئی بھی ایسا کھیل نہیں ہے کہ جس میں خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ ملک کا نام نہ روشن کیا ہو۔
پی سی بی کے پینل میں ہونا حمیرا کے لیے فخر کی بات ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے ہم پر اعتماد کیا اور ہمیں اس مقام پر لے کر آئے ہیں اور ہم کرکٹ امپائرز کو دنیا کے سامنے لارہے ہیں۔ تاہم حمیرا کا ایک خواب ہے جو وہ پورا ہوتا دیکھنا چاہتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ وہ ایک مرتبہ آئی سی سی پینل میں ضرور جائیں اور پاکستان کی نمائندگی کریں اور آئی سی سی کے کوالیفائنگ راؤنڈ، ورلڈ کپ یا ویمن سیریز وغیرہ میں امپائرنگ کریں۔