سائنس دانوں نے انڈیا کے مغربی گھاٹ کے سرسبز پہاڑوں کے دامن میں ایک ایسا حیران کن مینڈک دریافت کیا ہے، جس کی ٹانگ سے ایک چھوٹی کھمبی پھوٹ رہی ہے۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ سے منسلک محققین کا کہنا ہے کہ اس دریافت میں پہلی بار کھمبی کو کسی زندہ جانوروں کے ٹشوز پر اگتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
مینڈک کو مزید مطالعہ کے لیے پکڑا تو نہیں جا سکا تاہم پانی اور خشکی کے اس جاندار کی آن لائن شیئر کی گئی تصاویر، جن میں اس کی پچھلی ٹانگ کے قریب کھمبی پھوٹی ہوئی دکھائی گئی تھی، نے سائنس دانوں کے درمیان نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔
مینڈک کی اس نوع، جس کا نام Rao's intermediate golden-backed frog (Hylarana intermedia) ہے، دنیا کے
اس خطے میں پایا جاتا ہے جہاں سب سے زیادہ حیاتیاتی تنوع دیکھنے کو ملتا ہے۔
فنگس کے ماہرین نے اس کھمبی کو بونٹ مشروم کے طور پر شناخت کیا ہے، جو زیادہ تر سڑنے والی لکڑی پر پایا جاتا ہے۔
بیکٹیریا اور فنگس سمیت کئی جرثومے جانداروں کے ساتھ پروان چڑھتے ہیں، جن میں زیادہ تر سمبیوٹک (باہمی فائدے کے لیے ایک دوسرے پر انحصار کرنے) یا کم از کم نقصان دہ طفیلے ہو سکتے ہیں۔
تاہم کچھ ایسے جرثومے بھی ہیں، جو مخصوص حالات میں انفیکشن کا سبب بن سکتے ہیں، جن میں کھلاڑی کے پاؤں میں پھپھوندی، ییسٹ انفیکشن یا منہ کی پھپھوندی کی بیماری یعنی کینڈیڈیسیس شامل ہیں۔
تاہم ’ریپٹائلز اینڈ ایمفیبیئنز‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق کسی زندہ جاندار پر اگنے والی کھمبی کا اس سے پہلے کبھی دستاویزی ثبوت موجود نہیں تھا۔
محققین نے کہا: ’اب تک ہمارے بہترین علم کے مطابق زندہ مینڈک کے جسم سے پھوٹنے والی کھمبی کو اس سے پہلے کبھی بھی دستاویزی شکل میں نہیں دکھایا گیا۔‘
اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ مشروم کو ایسے غذائی اجزا کی ضرورت ہوتی ہے جو عام طور پر کسی جانور کی جلد پر مناسب طور پر موجود نہیں ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محققین کو شبہ ہے کہ تازہ ترین صورت میں مرطوب، مون سون سے سیراب ہونے والے مغربی گھاٹ نے مشروم کی افزائش کے لیے ایک مثالی ماحول فراہم کیا ہو گا، جس میں مناسب نمی اور نامیاتی مادے شامل ہیں۔
مینڈک پر اگنے والے مشروم کی صحیح نوعیت ابھی تک واضح نہیں ہے اور یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ یہ جلد میں کتنی گہرائی میں داخل ہوا ہے۔
یہ تشویش کا باعث ہو سکتا ہے کیونکہ پہلے سے ہی مینڈک اور دنیا بھر میں سیکڑوں دیگر خشکی اور پانی کے جانوروں کو Batrachochytrium dendrobatidis نامی ایک اور طفیلی فنگس سے خطرہ ہے جسے عام طور پر chytrid فنگس کہا جاتا ہے۔
Chytrid فنگس انفیکشنز عالمی سطح پر خشکی اور پانی میں رہنے والے جانوروں کی آبادی میں مسلسل کمی کا باعث بنی ہے کیونکہ وہ ان انواع کی جلد پر پانی اور نمکیات کے توازن کو ختم کر دیتے ہیں اور بالآخر ان کے دل کی ناکامی کا سبب بنتے ہیں۔
تاہم حالیہ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قاتل فنگس پورے انڈیا میں مینڈک کے ہاٹ سپاٹ میں کم سطح پر موجود ہے۔
© The Independent