قومی اسمبلی کی 266 عام نشستوں میں سے 264 کے نتائج آ چکے ہیں۔ این اے آٹھ باجوڑ کے انتخابات ملتوی کر دیے گئے جبکہ این اے 88 خوشاب دو کے نتائج روک دیے گئے ہیں۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے مطابق حالیہ انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب 47.6 فیصد رہا جب کہ 2018 میں یہ تناسب 52 فیصد تھا۔
الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر جاری فارم 47 کے مطابق اب تک پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ اراکین، جنہوں نے آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیا، سب سے زیادہ تعداد میں قومی اسمبلی کی (93) نشستیں جیتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن دوسری بڑی جماعت بن کر سامنے آئی، جس کی سیٹوں کی تعداد 75 اور پاکستان پیپلز پارٹی کی 54 ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان 17، آزاد نو، جمعیت علمائے اسلام پاکستان چار، پاکستان مسلم لیگ تین، استحکام پاکستان پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی دو، دو نشستیں جیتنے میں کامیاب رہیں۔
اس کے علاوہ مسلم لیگ ضیاالحق، مجلس وحدت المسلمین، پختونخوا نیشنل عوامی پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، اور نیشنل پارٹی ایک، ایک سیٹ جیت سکیں۔
اب تک جن 264 حلقوں کے نتائج آ چکے ہیں جن کے فارم 47 کے مطابق، جو الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود ہیں، قومی اسمبلی کے 38 حلقے ایسے ہیں، جہاں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے مجموعی ڈالے گئے ووٹوں میں سے 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔
ان میں سے 20 حلقے خیبر پختونخوا میں جبکہ 18 پنجاب کے ہیں۔
50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے پی آٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار | ||||
نمبر |
امیدوار کا نام |
حلقہ | ڈالے گئے مجموعی ووٹ | حاصل کردہ ووٹ |
1 | احمد علی خان | این اے 2 سوات 1 | 177355 | 88993 |
2 | سہیل سلطان | این اے 4 سوات 3 | 155774 | 88009 |
3 | جنید اکبر | این اے 9 مالاکنڈ | 196146 | 113513 |
4 | گوہر علی خان | این اے 10 بونیر | 201230 | 110023 |
5 | علی خان جدون | این اے 17 ایبٹ آباد | 172663 | 97177 |
6 | عمر ایوب خان | این اے 18 ہری پور | 349897 | 192948 |
7 | اسد قیصر | این اے 19 صوابی 1 | 211710 | 115635 |
8 | شہرام خان | این اے 20 صوابی 2 | 212976 | 122965 |
9 | مجاہد علی | این اے 21 مردان 1 | 232257 | 119023 |
10 | محمد عاطف | این اے 22 مردان 2 | 214974 | 115801 |
11 | علی محمد | این اے 23 مردان 3 | 198031 | 102175 |
12 | محمد اقبال خان | این اے 27 خیبر | 135401 | 85514 |
13 | ارباب عامر ایوب | این اے 29 پشاور 2 | 122708 | 68792 |
14 | شاندانہ گلزار | این اے 30 پشاور 3 | 131994 | 78971 |
15 | شیر ارباب علی | این اے 31 پشاور 4 | 143078 | 82985 |
16 | آصف خان | این اے 32 پشاور 5 | 220490 | 122792 |
17 | شہریار آفریدی | این اے 35 کوہاٹ | 242064 | 128491 |
18 | یوسف خان | این اے 36 ہنگو | 133184 | 73076 |
19 | شاہد احمد | این اے 38 کرک | 214177 | 117887 |
20 | نسیم علی شاہ | این اے 39 بنوں | 277991 | 147087 |
21 | محمد احمد چٹھہ | این اے 66 وزیر آباد | 304248 | 160676 |
22 | حاجی امتیاز احمد چوہدری | این اے 68 منڈی بہاؤالدین 1 | 297621 | 166093 |
23 | اسامہ احمد میلہ | این اے 83 سرگودھا 2 | 268068 | 136566 |
24 | محمد جمال احسن خان | این اے 89 میانوالی 1 | 300394 | 217427 |
25 | عمیر خان نیازی | این اے 90 میانوالی 2 | 284580 | 179820 |
26 | علی افضل ساہی | این اے 95 فیصل آباد 1 | 278347 | 144761 |
27 | رانا عاطف | این اے 101 فیصل آباد 7 | 259009 | 134840 |
28 | چنگیز احمد خان | این اے 102 فیصل آباد 8 | 259655 | 132526 |
29 | محمد علی سرفراز | این اے 103 فیصل آباد 9 | 259161 | 147734 |
30 | محمد محبوب سلطان | این اے 108 جھنگ 1 | 334765 | 169578 |
31 | وقاص اکرم | این اے 109 جھنگ 2 | 299456 | 176586 |
32 | محمد امیر سلطان | این اے 110 جھنگ 3 | 339331 | 199590 |
33 | سردار محمد لطیف کھوسہ | این اے 122 لاہور 6 | 227357 | 117109 |
34 | ملک محمد عامر ڈوگر | این اے 149 ملتان 2 | 233206 | 146613 |
35 | جاوید اقبال وڑائچ | این اے 172 رحیم یار خان 4 | 253822 | 129307 |
36 | محمد معظم علی خان | این اے 177 مظفر گڑھ 3 | 223598 | 113892 |
37 | خواجہ شیراز محمود | این اے 183 تونسہ | 257282 | 134048 |
38 | زرتاج گل | این اے 185 ڈی جی خان 2 | 176476 | 94881 |
آٹھ حلقے جہاں مسلم لیگ ن تحریک لبیک کی وجہ سے ہاری
2018 کے انتخابات میں تحریک لبیک پاکستان نے پہلی بار حصہ لیا اور22 لاکھ ووٹوں کے ساتھ پاکستان کی پانچویں بڑی جماعت بن کر سامنے آئی۔
انہی انتخابات میں تحریک لبیک کی وجہ سے پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی کی 17 نشستوں پر جب کہ پاکستان مسلم لیگ ن کو 14 سیٹوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
حالیہ انتخابات میں تحریک لبیک کی وجہ سے مسلم لیگ ن کو قومی اسمبلی کی آٹھ نشستوں پر شکست اٹھانا پڑی۔
یہ سوال الگ ہے کہ اگر ٹی ایل پی نہ ہوتی تو کیا یہ سارا ووٹ مسلم لیگ ن کو پڑنا تھا یا نہیں؟
جن حلقوں میں تحریک لبیک کا ووٹ مسلم لیگ ن کی شکست کی وجہ بنا ان میں این اے 67 حافظ آباد، این اے 79 گوجرانوالہ، این اے 81 گوجرانوالہ، این اے 111 ننکانہ صاحب،این اے 115 شیخو پورہ، این اے 116 شیخو پورہ، این اے 121 لاہور اور این اے 133 قصور شامل ہیں۔
آٹھ حلقے جہاں مسلم لیگ ن کو پیپلز پارٹی کی وجہ سے شکست ہوئی
حالیہ انتخابات میں پی پی پی نے پنجاب سے قومی اسمبلی کی چھ سیٹیں جیتیں جب کہ خیبر پختونخوا سے اس کے حصے میں صرف ایک سیٹ آئی۔
جے یو آئی بھی پیپلز پارٹی کی حمایت سے خیبر پختونخوا میں دو سیٹیں جیت سکتی تھی۔
این اے ون چترال میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار عبد الطیف نے 61 ہزار 834 ووٹ لیے جب کہ ان کے مدمقابل جے یو آئی کے محمد طلحہ محمود نے 42 ہزار 987، ن لیگ کے افتخار الدین نے 20 ہزار سات اور پیپلز پارٹی کے فضل ربی نے 23 ہزار 723 ووٹ حاصل کیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح این اے 44 ڈی آئی خان میں مولانا فضل الرحمٰن بھی علی امین گنڈا پور سے اس لیے ہارے کہ ان کے مدمقابل پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی تھے اور دونوں کے مجموعی ووٹ علی امین گنڈا پور سے زیادہ بنتے ہیں۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اگر پنجاب میں سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کرتیں تو آٹھ حلقے ایسے تھے، جہاں پیپلز پارٹی کی حمایت سے مسلم لیگ ن قومی اسمبلی کی سیٹیں جیت سکتی تھی۔
مسلم لیگ ن این اے 16 ایبٹ آباد کا انتخاب بھی اس وجہ سے ہاری کہ یہاں اس کے ٹکٹ ہولڈر مرتضی جاوید عباسی پر ن لیگ کے ہی منحرف رکن سردار مہتاب عباسی بھاری پڑے اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار کا راستہ صاف ہو گیا۔
دیگر نشستیں، جہاں مسلم لیگ کو پیپلز پارٹی کی وجہ سے پنجاب میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، میں این اے 84 سر گودھا، این اے 86 سرگودھا، این اے 142ساہیوال، این اے 146 خانیوال، این اے 154 لودھراں، این اے 169 وہاڑی، این اے 170 رحیم یار خان اور این اے 181 لیہ شامل ہیں۔
این اے 91 بھکر میں بھی مسلم لیگ ن کا امیدوار پی ٹی آئی سے اس لیے ہار گیا کیونکہ آزاد امیدوار سعید خان نے 71 ہزار سے زیادہ ووٹ لیے اور یوں یہاں سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ثنا اللہ مستی خیل ایک لاکھ چھ ہزار تین ووٹ کے ساتھ جیت گئے۔
این اے 95 فیصل آباد میں استحکام پاکستان اور ن لیگ میں ووٹوں کی تقسیم کا فائدہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار محمد سعد اللہ کو ہوا اور وہ ایک ہزار سے کچھ زیادہ ووٹوں کے ساتھ کامیاب قرار پائے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔