کونج ایک مہمان پرندہ ہے جو زمانہ قدیم سے بلوچستان آتا جاتا ہے، یہی وجہ ہے بلوچ شاعروں نے بھی اپنی شاعری میں کونج کو بطور استعارہ استعمال کیا ہے۔
اٹھارویں صدی میں مری قبیلے میں جنم لینے والے معروف شاعر مست توکلی اپنے اشعار میں کونج کی قطاروں کا تذکرہ کچھ یوں کرتے ہیں ( ترجمہ بلوچی شاعری)
تمہاری آنکھوں کے قربان جاؤں تم نے سمو کا خرام نہیں دیکھا
کاش وہ دن آئیں کہ موسم لوٹ آئیں
خدا کو پکارتا ہوں کہ وہ میری مدد کو آئے
امیرانہ ہتھیار سجا کر شاہ(حضرت علی) کو یاد کرتا ہوں
کونج اگلے موسم میں سندھ سے لوٹ آئیں
میرا بھی آن کر ان کونجوں کے ایک ڈار سے حال احوال ہوا
کونج آوازیں نکالتی ہیں جو میرے دل کی دوا نہیں ہو سکتی
میرے دل کی دوا تو سمو کے میٹھے قہقہے ہیں
کونج قطار میں، اور میں بھی ان کے قطار میں شامل ہو گیا
کونج پرواز میں جبکہ میں پیدل چل رہا ہوں
کونج سیاحت کو جبکہ میں سمو کو دیکھنے
میرا دل تو سمو کے وصل کے لیے بے قرار ہے
کونجیں لوٹ رہی ہیں میں بھی لوٹ چلتا ہوں
کونجوں کی اک ڈار کے ساتھ میں بھی ہو لیتا ہوں
کاش وہ دن آئے جب موسم کی طرح
میں بھی لوٹ آﺅں
جب کونجیں سندھ سے آئندہ موسم لوٹیں
میں بھی لوٹ جاﺅں
بلوچستان میں طویل خشک سالی کے بعد رواں سال بارشیں زیادہ ہوئی ہیں اور اس وجہ سے جہاں مہمان پرندوں کی بڑی تعداد میں آمد کا امکان ہے وہیں شکاریوں نے بھی پرندوں کا شکار کرنے کے لیےے ان کے راستو ں پر ڈیرے ڈال دیے ہیں
ستمبر میں نقل مکانی کرنے والے پرندے سائیبریا سے براستہ ژوب بلوچستان میں داخل ہوتے ہیں اور پھر صوبے کے گرم علاقوں میں پھیل جاتے ہیں۔
سائبیریا سے نقل مکانی کرنے والے ان پرندوں کے روٹ کو ’انڈس فلائی وے گرین روٹ‘ کہا جاتا ہے۔
محمد سلیم پرندوں کے بے دریغ شکار کو اچھا نہیں سمجھتے لیکن وہ تسلیم کرتے ہیں کہ زیادہ تر شکاری پرندوں کاشکار بندوقوں سے کرتے ہیں اور بعض جالوں کے ذریعے بھی پکڑتے ہیں۔
سلیم بھی پرندوں کی سائبیریا سے آمد کے سیزن میں بلوچستان کے ضلع کچھی کے میدانی علاقوں میں اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ کیمپ لگا کر شکار کرتے ہیں۔
سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا وہ زیادہ تر بٹیر کا شکار کرتے ہیں جو بڑی تعداد میں آتے ہیں اور بعض اوقات تقریباً سو پرندے بھی شکار کر لیتے ہیں۔
انہوں نے کہا شکاریوں کو اس بات کی آگاہی نہیں کہ ان کے شکار سے پرندوں کی نسل ختم ہورہی ہے۔
’بعض شکار ی رات کو پرندوں کے گزرنے کے راستے پر جال لگاتے ہیں اور سپیکر پر پرندے کی آواز لگا کر باقیوں کو قابو کرتے ہیں، اس طریقے سے کسی بھی پرندے کا بچنا مشکل ہوتا ہے۔‘
رامسر کنونشن
رامسر کنونشن کے تحت بلوچستان کے پانچ آب گاہوں سٹولا آئی لینڈ، حب ڈیم،جیوانی، میانی ہور، اوماڑہ کے ساحل کو محفوظ قرار دیا گیا ہے۔
واضح رہے رامسر سائٹس ایسے آبی علاقوں کو کہتے ہیں جہاں ایک وقت میں 20 ہزار یا اس سے زیادہ ہجرت کرنے والے پرندے قیام کرتے ہیں۔
رامسر کنونشن کے تحت عالمی سطح پر ایسی آب گاہوں کی فہرست تیار کی گئی جو معینہ معیار کے مطابق عالمی اہمیت کی حامل ہیں تاکہ ان آب گاہوں کی حفاظت کے لیے ترجیحی بنیادوں پر منصوبے بنائے جائیں
یہ کنونشن ایران کے شہر رامسر میں 1971میں تشکیل پایا اور پاکستان نے 1976میں اس پر دستخط کیے۔
محمد سلیم کہتے ہیں انہیں آج تک کسی حکومتی ادارے یا تنظیم نے اس حوالے سے نہیں بتایا کہ کس پرندے کا شکار کتنی تعداد میں اور کس وقت کرنا چاہیے۔ تاہم ’ہم خود پرندوں کے انڈے دینے اور بچے دینے کے وقت کا خیال کرتے ہیں۔‘
سلیم کے مطابق اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود انہیں اس بات کا علم نہیں کہ بلوچستان میں نقل مکانی کرکے آنے والے پرندوں میں کن کو معدومی کا خطرہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماہ ستمبر میں سائبیریا سے نقل مکانی کرکے بلوچستان آنے والے پرندوں میں کونج، واٹر برڈ ،فالکن، و دیگر شامل ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف ( ورلڈ وائڈ فنڈ ) کے سابق عہدے دار اور ماہر مائیگریٹری برڈز باضمیر خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں خدشہ ظاہر کیا کہ جس بے دردی سے پرندوں کا شکار جاری ہے وہ دن دور نہیں جب ہمارے علاقے سے کونج ،بٹیر، شاہین نظر آنا بند ہو جائیں گے۔
باضمیر نے بتایا ژوب میں شکاری پارٹیاں سرعام پرندوں کا شکار کررہی ہیں جن میں غیر مقامیوں کے ساتھ مقامی بھی شامل ہیں جوشہر سے باہر کیمپ لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ستمبر میں ژوب میں غیر مقامی شکاریوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے جو خیبرپختونخوا کے علاقے لکی مروت اور بنوں وغیرہ سے آتے ہیں۔
اکتوبر کے مہینے سے فالکن شاہین (جسے چرخ بھی کہا جاتا ہے ) کی آمد شروع ہوجاتی ہے جو بہت قیمتی پرندہ ہے۔
مقامی افراد کے ساتھ غیر مقامی بھی اس کا شکار کرنے کے بعد عرب باشندوں کو مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے۔
باضمیر کہتے ہیں ژوب کے علاوہ لورالائی، موسیٰ خیل،میختر اور بارکھان میں بھی پرندوں کا بے دریغ شکار کیا جاتا ہے، جو انتہائی تشویش ناک ہے۔
باضمیر کا کہنا ہے وہ 20،15 سال سے پرندوں کا بے دریغ شکار دیکھ رہے ہیں کیونکہ حکومت زبانی جمع خرچ کے طور پر پابندی لگا کر چند ایک شکاری گرفتار کر لیتی ہے لیکن عملاً کچھ نظر نہیں آتا۔
انہوں نے بتایا پہلے شکار صرف خزاں اور بہار کے موسم میں کیا جاتا تھا لیکن اب سارا سال شکاری پرندوں کا پیچھا کرتے ہیں۔
دوسری جانب، محکمہ جنگلات اور جنگلی حیات کے ایڈیشنل سیکریٹری قطب خان مینگل نے بتایا بلوچستان میں کسی کو بھی پرندوں کے غیر قانونی شکار کی اجازت نہیں۔ ’جہاں سے بھی غیر قانونی شکار کی شکایت ملتی ہے ہم فوری کارروائی کرتے ہیں۔‘
’جب میڈیا پر زیارت میں جونیپر کے درختوں کے کاٹنے کی خبر چلی تو ہم نے انکوائری کمیٹی قائم کی، پرندوں کے شکار پر پابندی کا اختیار ہم نے متعلقہ ڈویژن کو دے رکھا ہے، جب وہ محسوس کرتے ہیں دفعہ 144کے تحت پابندی لگادیتے ہیں۔‘
ڈپٹی کنزویٹر محکمہ جنگلات ژوب سید شراف الدین کے مطابق ضلعے میں نقل مکانی کرنے والے پرندوں کے غیرقانونی شکار میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا سلسلہ جاری ہے۔
’گذشتہ دنوں سمبازہ،گل کچ، بادنزئی، دریائے ژوب،کلی برنج میں کارروائی کے ذریعے تین افراد کو گرفتار کرکے شکار کردہ 15 کونج برآمد کیے گئے اور شکار میں استعمال ہونے والا سامان بھی قبضے میں لے لیا گیا۔‘
شراف الدین نے بتایا کارروائی کے دوران بٹیر کے شکار کے لیے قائم پانچ کیمپ بھی لائسنس کی مدت ختم ہونے پر ختم کرا دیے گئے جبکہ گرفتار شکاریوں کے خلاف وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت چالان عدالت میں جمع کرایا گیا ہے۔
ڈویژنل فورسٹ آفیسر شیرانی سلطان محمد کے مطابق ’ہمارے علاقے میں 95فیصد شکاری خیبر پختونخوا سے آتے ہیں۔ پرندوں کے غیر قانونی شکار کے خلاف کارروائی کے دوران سلیازہ کے مقام سے ایک شکاری کو گرفتار کرکے کونجیں قبضے میں لے لی گئیں‘۔
’نایاب پرندے کونج کے شکار پر پابندی کے لیے دفعہ 144 عموماً مارچ کے پہلے ہفتے میں لگائی جاتی ہے جو اپریل کے آخر تک رہتی ہے۔‘
گو حکومت کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان میں نقل مکانی کرنے والے پرندوں کے تحفظ کے لیے تمام اقدامات کیے جارہے ہیں، تاہم ماہرین کا خیال ہے اگر اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو حالات قابو سے باہر ہوجائیں گے۔