امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے رواں برس صدارتی انتخابات سے قبل جمعرات کو سٹیٹ آف دی یونین کے اپنے آخری خطاب میں اسرائیل اور حماس پر غزہ میں چھ ہفتوں کی فائر بندی پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل انسانی امداد کو ’سودے بازی‘ کے طور پر استعمال نہیں کر سکتا۔
صدر بائیڈن نے کیپیٹل ہل میں ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں، فائر بندی کی کوششوں اور روس۔ یوکرین جنگ سمیت امریکہ میں معاشی اور ٹیکس اصلاحات پر بات کی۔
سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی فضائی و زمینی کارروائیاں جاری ہیں، جن کے دوران 30 ہزار سے زائد شہری جان سے جا چکے ہیں اور ہزاروں زخمی ہیں جبکہ غزہ پر قحط کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ قطر میں حماس اور اسرائیل کے درمیان فائر بندی معاہدے کے لیے ثالثی کی کوشش جاری ہے، تاہم تا حال اب تک کوئی معاہدہ طے نہیں پایا ہے۔
دوسری جانب امریکہ سمیت مختلف ممالک کی جانب سے غزہ میں فضا سے امدادی سامان گرایا جا رہا ہے کیونکہ زمینی راستوں سے امداد کی ترسیل میں کمی کے باعث غزہ کے شہریوں کو خوراک، پانی اور ادویات کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
سٹیٹ آف دی یونین سے اپنے آخری خطاب میں صدر جو بائیڈن نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ غزہ میں اسرائیل اور حماس پر چھ ہفتوں کے لیے فائربندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اسرائیل انسانی امداد کو ’سودے بازی‘ کے طور پر استعمال نہیں کر سکتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بائیڈن کا کہنا تھا: ’میں اسرائیل کی قیادت سے یہ کہتا ہوکہ انسانی امداد ایک ثانوی آپشن یا سودے بازی نہیں ہو سکتی۔ معصوم جانوں کا تحفظ اور جانیں بچانا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔‘
صدر بائیڈن نے ایک بار پھر کہا کہ اسرائیل کے پاس سات اکتوبر کو ہونے والے بڑے حملے کے جواب میں غزہ کی پٹی پر کنٹرول کرنے والی حماس پر حملہ کرنے کا جواز تھا، تاہم انہوں نے غزہ پر پڑنے والے اثرات کو ’دل دہلا دینے والی‘ صورت حال قرار دیا۔
انہوں نے حماس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’عسکریت پسند‘ قیدیوں کو رہا کر کے ’آج ہی اس تنازعے کو ختم کر سکتے ہیں۔‘
صدر بائیڈن نے مزید کہا: ’میں فوری فائر بندی کے لیے مسلسل کام کر رہا ہوں، جو چھ ہفتوں تک جاری رہے گی۔‘
ممکنہ معاہدے کی تفصیل بتاتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ اس معاہدے سے ’قیدیوں کو گھر پہنچایا جائے گا اور ناقابل برداشت انسانی بحران کو کم کیا جائے گا۔ پائیدار صورت حال قائم کی جانب بڑھا جا سکتا ہے۔‘
بائیڈن نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اپنی حمایت کا بھی اعادہ کیا، جن کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جیسا کہ ہم مستقبل کی طرف دیکھتے ہیں تو تنازعے کا واحد اور حقیقی حل ’دو ریاستی حل‘ ہے۔
ان کے بقول: ’میں یہ (دو ریاستی حل) اسرائیل کے تاحیات حامی کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔ اسرائیل کے ساتھ اس سے زیادہ مضبوط ریکارڈ کسی (اور امریکی رہنما) کا نہیں ہے۔ میں یہاں آپ میں سے ہر ایک کو چیلنج کرتا ہوں۔‘
’روس سے جنگ میں امریکہ یوکرین کے ساتھ‘
شمال مشرقی یورپ میں جاری تنازع پر بات کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے خطاب میں کہا کہ روس اور یوکرین جنگ میں امریکہ کیئف کے ساتھ کھڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یوکرینی پوتن کو روک سکتے ہیں اگر ہم انہیں ہتھیاروں کی فراہمی جاری کریں۔
انہوں نے مزید کہا: ’ہم یوکرین کو ہتھیاروں اور خوراک کی فراہمی جاری رکھیں گے۔ یوکرین ہم سے ہمارے فوجی نہیں مانگ رہا، نہ ہی امریکی فوجیوں کی وہاں ضرورت ہے۔ ہم یوکرین کے ساتھ کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔‘
صدر بائیڈن نے کہا کہ پوتن کے لیے ہمارا پیغام سادہ ہے کہ ہم نہیں جھکیں گے، یوکرین کے بارے میں ہمارا فیصلہ واضح ہے کہ ہم کسی کے سامنے نہیں جھکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ نیٹو کا بانی رکن ہے، جس کے قیام کا مقصد جنگوں کو روکنا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’سویڈن اب اس تنظیم کا رکن ہے، ہم انہیں خوش آمد کہتے ہیں۔‘
’سیاسی افراتفری کے لیے امریکہ میں کوئی جگہ نہیں‘
ملکی سیاست پر بات کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ امریکہ اور دنیا میں جمہوریت پر حملے ہو رہے ہیں۔
صدارتی انتخابات میں اپنے حریف ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے جو بائیڈن نے جنوری 2020 میں کیپیٹل ہل کی عمارت پر حملے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ سابق صدر نے اپنے حامیوں کو جمہوریت پر حملے کے لیے اکسایا لیکن سیاسی افراتفری کے لیے امریکہ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
ان کے بقول: ’تاریخ دیکھ رہی ہے، ہماری نسلیں پڑھیں گی کہ ہم نے کیا کیا، ہم ہر صورت جمہوریت کا تحفظ کریں گے۔‘
معاشی اور ٹیکس اصلاحات
ملکی معیشت پر بات کرتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا کہ ’جب میں اقتدار میں آیا تو امریکہ کرونا وبا اور معاشی بحران کا شکار تھا۔ لاکھوں امریکیوں کی جان گئی اور میرے پیش رو ناکام ہو گے تھے۔‘
انہوں نے کہا کہ ان کی انتظامیہ نے کرونا کا بہادری سے مقابلہ کیا اور معیشت کو مستحکم کیا۔
صدر بائیڈن نے مزید کہا: ’امریکہ نے کرونا کی ویکسین بنائی اور ملک اور دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کی جان بچائی۔ ہم نے لاکھوں ملازمیں اور چھوٹے کاروبار کے مواقع پیدا کیے۔ ہم مہنگائی کو نو فیصد سے کم کر کے تین فیصد تک لائے، جو دنیا میں سب سے کم ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم مصنوعات امریکہ میں بنائیں گے اور روزگار پیدا کریں گے۔ ہم نے 650 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو راغب کیا ہے۔‘
مسقبل کے عزائم کے بارے میں بات کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ ’صاف پانی اور تیز ترین انٹرنیٹ ہر امریکی کو مہیا کریں گے۔ امریکی دنیا میں ادویات پر سب سے زیادہ رقم خرچ کرتے ہیں جو غلط ہے، ہم اسے ٹھیک کریں گے۔‘
ان کے بقول: ’ہم نے ڈیڑھ کروڑ افراد کو روزگار مہیا کیا، ہم معاشی اور ٹیکس اصلاحات سے عوام کے حالات مزید بہتر بنائیں گے۔‘
امریکی صدر جو بائیڈن نے کارپوریشنوں پر زیادہ ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا۔
ان کا کہنا تھا: ’مجھے ایک ایسی معیشت وراثت میں ملی جو تباہی کے دہانے پر تھی۔ اب ہماری معیشت دنیا کے لیے قابل رشک ہے۔ ہم نے صرف تین سالوں میں ڈیڑھ کروڑ ملازمتیں پیدا کیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ بے روزگاری 50 سال کی کم ترین سطح پر ہے۔‘
بائیڈن نے کہا: ’یہ کارپوریٹ پر ٹیکس کو کم از کم 21 فیصد تک بڑھانے کا وقت ہے تاکہ ہر بڑی کارپوریشن آخر کار اپنا منصفانہ حصہ ادا کرنا شروع کرے۔‘
یہ وفاقی خسارے کو کھربوں ڈالر تک کم کرنے کے وسیع تر منصوبے کا حصہ ہیں اور اس کے ساتھ نئے نظام میں کم آمدنی والے شہریوں کے لیے ٹیکسوں میں کٹوتیاں بھی شامل ہیں۔
کارپوریشنوں کے علاوہ صدر نے کہا کہ وہ امریکیوں کو رہائش کے اخراجات میں مدد کے لیے سالانہ ٹیکس کریڈٹ فراہم کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ وہ اس بار بھی صدرارتی انتخابات جیتیں گے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔