پاکستان بھر میں ساتواں عورت مارچ ہوا۔ اس موقعے پر عوت مارچ کے ہر چیپٹر نے اپنا منشور جاری کر دیا ہے جو میڈیا کی رسائی میں ہونے کے باوجود عوام تک پہنچنے سے قاصر ہے۔
عام انتخابات کو ایک ماہ بھی مکمل نہیں ہوا۔ اس کے لیے جو کوریج کی گئی تھی، عورت مارچ کو کم و بیش ویسی ہی مگر چھوٹے پیمانے پر کوریج کی ضرورت ہے۔
جس طرح ہر سیاسی جماعت کا منشور پڑھا گیا اور اس کا تیا پانچا کر کے عوام کے سامنے پیش کیا گیا، اسی طرح عورت مارچ کے تمام چیپٹرز کے چھوٹے چھوٹے منشوروں کو بھی عوام تک پہنچانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ مارچ کا مقصد سمجھ سکیں۔
ایسے لگتا ہے جیسے میڈیا کسی ’نیوز وردی ایونٹ‘ کا انتظار کر رہا ہے جو یا تو عورت مارچ پر حملہ ہو گا یا کسی اول جلول کا مارچ کے حوالے سے عجیب سا تبصرہ، یا کسی ثقافت کے خود ساختہ ذمہ دار کی طرف سے مارچ کے خلاف کسی عدالت میں کیس درج کروانے کی کوشش۔
اس کے علاوہ میڈیا کے لیے عورت مارچ میں دلچسپی کا کوئی عنصر موجود نہیں ہے۔
اس وقت مین سٹریم میڈیا مارچ کے حق میں اداریے تک لکھے گا لیکن اس سے پہلے عوام کو مارچ کے بارے میں کچھ نہیں بتائے گا۔
ان اداریوں میں بھی بس مارچ پر ہونے والی تنقید کی بات ہوگی اور ’خواتین کو آگے بڑھنے دو، مارچ ہونے دو‘ جیسے الفاظ لکھے جائیں گے۔ عوام کو مارچ کے مقاصد اور اتنے سالوں میں معاشرے پر اس کے پڑنے والے اثر کے بارے میں شاید ہی کہیں کچھ لکھا اور بولا جائے۔
دوسری طرف اگر عورت مارچ نے بھی اتنے سالوں میں کچھ سیکھا ہے تو وہ میڈیا کو نظر انداز کرنا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یوٹیوبرز نے مارچ انتظامیہ کی ناک میں اس حد تک دم کیا ہوا ہے کہ اس سال کچھ چیپٹر اپنی سوشل میڈیا کیمپین انہی کے خلاف کر رہے ہیں۔
سماجی تحاریک کو کامیاب ہونے کے لیے میڈیا کے ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ میڈیا ان کے پیغام کو عوام تک پہنچانے کا واحد موثر ذریعہ ہے۔
اگر میڈیا تحریک کا پیغام جیسا ہے ویسے کی بنیاد پر عوام تک پہنچاتا ہے تب ہی وہ تحریک عوام میں مقبولیت حاصل کر پاتی ہے ورنہ ناکام ہو جاتی ہے۔
عورت مارچ اپنے انداز اور انٹرنیٹ کی وجہ سے ملک گیر شہرت حاصل کر چکا ہے لیکن اسے ایک سالانہ احتجاج سے بڑھ کر تحریک کا درجہ حاصل کرنے کے لیے مین سٹریم میڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
اس کے لیے عورت مارچ اپنے سوشل میڈیا کا استعمال کر سکتی ہے۔ وہاں مارچ کے بارے میں میڈیا کے لیے پریس ریلیز جاری کی جا سکتی ہیں جو صحافی اپنے اپنے پلیٹ فارم پر آسانی سے شائع کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ میڈیا کے لیے ایک چھوٹی سی گائیڈ بنائی جا سکتی ہے جس میں انہیں بتایا جائے کہ وہ مارچ کے بارے میں معلومات کہاں سے حاصل کر سکتے ہیں۔
عورت مارچ کی انتظامیہ میڈیا میں موجود اپنے حامیوں کی مدد سے وہ گائیڈ میڈیا میں پھیلا سکتی ہے۔
میڈیا کے لیے چند ایونٹس کا انتظام بھی کیا جا سکتا ہے جو مارچ سے پہلے سالانہ پریس ریلیز اور مارچ کے علاوہ ہوں۔ اس سے میڈیا کو مارچ کی بہتر کوریج کرنے میں مدد ملے گی۔
اس حوالے سے عورت مارچ کی قیادت معروف شخصیات، ماہرین اور انفلوئنسرز کی بھی مدد حاصل کر سکتی ہے۔ اگر چند شخصیات ہی مارچ کی حمایت کر دیں اور وہ حمایت ’جی، مارچ ہونا چاہیے‘سے بڑھ کر میڈیا کو مارچ کا منشور بتانے تک پہنچ جائے تو مارچ کو کافی فائدہ ہو سکتا ہے۔
اگر کوئی شخصیت واقعی عورت مارچ کو سپورٹ کرتی ہے تو وہ پندرہ منٹ کے لیے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے عورت مارچ کے بارے میں بات کر سکتی ہے۔
عورت مارچ ایسی شخصیات کو اپنے لائیو ایونٹس میں مدعو کر سکتا ہے۔ میڈیا ان کے پیچھے پیچھے آ جائے گا۔
اگر مارچ انتظامیہ مین اسٹریم میڈیا کو نظر انداز کرتی رہے گی تو میڈیا کبھی بھی اس کی کوریج ویسے نہیں کرے گا جیسی اسے کرنی چاہیے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عورت مارچ کے پیچھے کوئی باقاعدہ ادارہ نہیں ہے۔ یہ صرف چند لوگوں کی کوشش ہے اور وہ ہر کام کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ تاہم، انہیں اپنی طاقت صحیح جگہ لگانے کی ضرورت ہے۔
مارچ سے پہلے یو ٹیوبرز کو للکارنے سے بہتر ہے کہ مین سٹریم میڈیا کو پکارا جائے اور اس کی مدد حاصل کی جائے۔
اس کے بغیر یہ مارچ اپنے دس سال پورے ہونے کے بعد بھی عوام کی نظروں میں بنا اپنا غلط تصور ٹھیک نہیں کر پائے گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔