جنوبی ایشیا کے لیے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ ڈونلڈ لو کو امریکی سینیئر رکن کانگریس بریڈ شیرمین نے تجویز دی تھی کہ وہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان سے جیل میں ملاقات کریں، تاہم سوال یہ ہے کہ آیا ایسا ممکن ہے؟
تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی جانب سے امریکی سائفر کے ذریعے ان کی حکومت ختم کرانے کے الزام پر بدھ کو امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے خارجہ أمور میں سماعت ہوئی۔
اس دوران سینیئر رکن کانگریس بریڈ شیرمین نے ڈونلڈ لو کو مخاطب کرتے ہوئے تجویز دی، جس میں کہا گیا کہ ’امریکی سفیر کو عمران خان سے جیل میں جا کر ملاقات کرنی چاہیے اور ان کے حالات معلوم کرنے کے ساتھ ان کا موقف جاننا چاہیے۔‘
اس سماعت میں ڈونلڈ لو نے پاکستان کے سابق وزیرِاعظم عمران خان کی جانب سے ان کی حکومت گرائے جانے میں امریکی مداخلت کے الزامات کو نہ صرف مسترد کیا تھا بلکہ عمران خان کا امریکی سازش کا الزام جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا، ’ہم پاکستان کی خود مختاری کا احترام کرتے ہیں۔‘
اس معاملے پر پاکستان میں بھی میڈیا اور سوشل میڈیا پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی غیر ملکی سفارت کار پاکستان کے قیدی سیاست دان سے ملاقات کر سکتا ہے؟ یا پہلے کوئی ایسی مثال موجود ہے؟
ان سوالوں کے جواب میں قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کا پاکستان میں اثر ورسوخ کافی زیادہ ہے۔ اس لیے وہ اگر چاہیں تو ملاقات تو ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے انہیں وزارت داخلہ سے باقاعدہ اجازت لینا ہوگی۔ کیونکہ کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک چاہے وہ جتنا بھی طاقتور ہو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا۔‘
ماہرین کے خیال میں پاکستان کے کئی بڑے سیاسی رہنما جیلوں میں بند رہے مگر ابھی تک کسی سے غیر ملکی حکام کی کوئی ملاقات ریکارڈ پر موجود نہیں ہے۔ البتہ متعلقہ مقامی پارٹی رہنماؤں کے ذریعے پیغام رسانی ضرور ہوسکتی ہے جو پاکستانی حکومت کی مرضی سے ہوئی ہو۔
قانون غیر ملکی حکام کی پاکستانی قیدی سے ملاقات کی اجازت دیتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل امجد شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عام طور پر ممالک کے درمیان ہونے والے عالمی قوانین کے تحت معاہدے ہی قانون ہوتے ہیں۔ اس لیے ہر ملک ان معاہدوں کے مطابق کوئی بھی کام کرتا ہے اور تعلقات کو آگے بڑھاتا ہے۔ ہمارے قانون میں یہ موجود ہے کہ کوئی بھی قیدی حکومت کی اجازت سے جس سے چاہے مل سکتا ہے۔
’جہاں تک بات ہے امریکی رکن کانگریس کے عمران خان سے ملاقات کی تجویز کی تو وہ ممکن بھی ہے اور نہیں بھی۔ اگر امریکی یا کسی بھی ملک کا سفارت کار یا کوئی بھی شہری عمران خان یا کسی بھی قیدی سے ملاقات کرنا چاہے تو اسے وزارت داخلہ سے اجازت لینا ہوگی۔‘
امجد شاہ کے بقول، ’امریکی اسٹیبلشمنٹ کا پاکستان میں حد سے زیادہ اثر ورسوخ ہے اگر وہ چاہیں تو حکومت کی اجازت سے ملاقات تو کر سکتے ہیں۔ مگر حکومت سفارتی تعلقات کی بنیاد پر شاید ایسا نہیں چاہے گی اور امریکی حکام کو اس معاملے سے دور رہنے پر قائل کرے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پراسیکیوٹر جنرل پنجاب فرہاد علی شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پاکستان کے قانون میں غیر ملکی حکام یا شہری کسی بھی قیدی سے ملاقات کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے ٹھوس وجہ کے ساتھ حکومت سے اجازت لینا لازمی ہوتا ہے۔ اگر حکومت کا محکمہ داخلہ اجازت نہیں دیتا تو عدالت سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔
فرہاد علی شاہ نے کہا: ’مگر جس طرح تحریک انصاف اور ان کی قیادت ملکی معاملات کو عالمی سطح پر اچھال کر ملکی بدنامی کا باعث بن رہی ہے اس سے لگتا ہے کہ نہ تو امریکی حکام عمران خان سے ملاقات کرنا چاہیں گے اور نہ ہی پاکستان اجازت دے گا۔‘
پی ٹی آئی رہنما اور سابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’امریکی رکن کانگریس کی تجویز اپنی جگہ ہمارا قانون بھی چاہے طریقہ کار کے تحت اجازت دیتا ہو مگر حکومت کبھی ایسی ملاقات نہیں ہونے دے گی۔ غیر ملکی فورم پر پی ٹی آئی معاملات اٹھانے پر اس لیے مجبور ہوئی کہ یہاں نہ انہیں قانونی حق مل رہا ہے نہ ہی بنیادی حقوق تسلیم کیے جارہے ہیں۔
’حتیٰ کہ عدالتیں بھی انصاف فراہم کرنے سے قاصر دکھائی دیں۔ ان حالات میں اگر کوئی ملک چاہے بھی تو اسے عمران خان سے ملاقات کی شاید اجازت نہ دی جائے۔‘
غیر ملکی حکام کی پاکستانی قیدی سے ملاقات کی مثال ہے؟
فرہاد علی شاہ کے مطابق ’پاکستان میں صدر آصف علی زرداری نے سب سے طویل قید کاٹی، اسی طرح نواز شریف اور بے نظیر نے بھی جیلیں دیکھیں کشمیری لیڈر جیلوں میں بند ہیں۔ لیکن ایسا کبھی نہ دیکھا نہ ہی سنا کہ کسی غیر ملکی سفارت کار یا عہدیدار نے کسی سیاسی قیدی سے ملاقات کی ہو۔‘
ان کے مطابق کانگریس کے ایوان نمائندگان نے اس معاملے کی سماعت بھی اس لیے کی کہ عمران خان نے سائفر کے ذریعے امریکی مداخلت کا الزام عائد کیا تھا اور ان کے ملکی عہدیدار ڈونلڈ لو کے ملوث ہونے کی شکایت کی تھی۔
’امریکہ ہو یا کوئی اور ملک وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان جیسے ملک میں مقامی اداروں کے ہوتے ہوئے یہاں کے کسی سیاسی لیڈر کی جانب سے جھوٹے الزامات پر مداخلت کریں یا اپنے سفارتی تعلقات کو داؤ پر لگائیں۔‘
امجد شاہ کے بقول، ’پاکستان میں کئی سیاسی قائدین جیلوں میں رہے اب عمران خان بھی قید ہیں، سب نے اپنی قانونی لڑائی اپنے ہی ملک کے نظام میں رہتے ہوئے لڑی۔ لیکن انہیں بھی ریلیف اسی نظام سے ملا جس میں انہیں سزائیں دی گئیں۔ لہذا اس سے پہلے کسی بھی جماعت یا لیڈر نے اس طرح اپنے نظام پر عالمی سطح پر عدم اعتماد نہیں کیا جس طرح پی ٹی آئی قیادت کر رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ کا بھی سیاست میں بہت کردار ہوتا ہے لیکن انہوں نے بھی اگر کسی قیدی سیاستدان سے ملاقات کرنا ہو وہ بھی جیل نہیں جاتے۔ البتہ سیاسی قیادیوں کو بیمار ہونے پر ہسپتالوں میں منتقل کیا جاتا وہاں ضرور اہم ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں لیکن وہ بھی آن ریکارڈ نہیں ہوتی۔‘
احمد اویس نے کہا کہ ’اس سے پہلے بھی سیاسی رہنماؤں کو جب ہمارے طاقتور حلقے انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بناتے رہے ہیں تو وہ بھی عالمی طاقتوں سے ہی مدد مانگنے پر مجبور ہوئے۔ اس میں غلط بھی کچھ نہیں کیونکہ جو عالمی طاقتیں انسانی حقوق سماجی آزادیوں یا جمہوری اقتدار کو فروغ دینے پر زور دیتی ہیں۔ تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے ملک میں اداروں کا شہریوں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ کیا رویہ ہے۔‘
ان کے بقول: ’اگر کسی بھی عام شہری، سیاسی کارکن یا سیاسی لیڈر کو حق نہیں ملتا تو وہ اپنی آواز تو اٹھا سکتا ہے۔ ملکی اندرونی معاملات ہوں یا بیرونی اس کا خیال سب پر لازم ہے۔ نظام ایسے ہی مضبوط ہوتے ہیں اسی طرح ہی چلتے ہیں۔‘