پاکستان میں مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہری کچھ عرصے سے شدت پسندوں کے نشانے پر ہیں۔ گذشتہ روز(منگل کو) بھی خیبرپختونخوا کے ضلع شانگلہ کے علاقے بشام میں چینی شہریوں کی بس پر خود کش دھماکہ ہوا ہے۔
پولیس کے مطابق اس خودکش دھماکے میں کوہستان کے داسو ہائیڈرو پاور منصوبے پر کام کرنے پانچ چینی شہری جان سے چلے گئے۔
اس سے قبل اسی داسو منصوبے پر کام کرنے والے چینی انجینیئرز کی گاڑی کے قریب 2021 میں دھماکہ ہوا تھا جس میں نو چینی شہریوں سمیت 13 افراد جان سے چلے گئے تھے۔
اپریل 2022 میں کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے تین چینی پروفیسرز بھی ایک حملے میں مارے گئے تھے۔ اس حملے میں ایک خاتون خود کش حملہ آور کو استعمال کیا گیا تھا، جس کی ذمہ داری بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی تھی۔
اس کے علاوہ بھی 2018 میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ ہوا تھا جس کی ذمہ داری بھی بی ایل اے نے قبول کی تھی۔
چین نے پاکستان میں تقریباً 60 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے تحت مختلف مںصوبوں پر کام جاری ہے جس میں بلوچستان کا گوادر پورٹ بھی شامل ہے۔
پاکستان میں چینی شہریوں پر حملوں کی بات کی جائے تو زیادہ تر بی ایل اے نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے اور واضح طور پر چینی شہریوں کو دھمکیاں بھی دی گئی ہیں کہ وہ ان منصوبوں پر کام کرنا چھوڑ دیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب سوال یہ ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں حملوں کی ذمہ داری تو بی ایل اے اور دیگر علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہے لیکن خیبر پختونخوا میں چینی شہریوں پر حملے کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی۔
کوہستان میں 2021 میں ہونے والے حملے کی ذمہ داری کسی شدت پسند تنظیم نے تو قبول نہیں کی تھی لیکن اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بتایا تھا کہ یہ حملہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے کروایا تھا، جس کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی تھی۔
اس حملے میں ملوث دو ملزمان کو 2022 میں سزائے موت بھی سنائی گئی تھی اور عدالتی فیصلے کے بعد پاکستانی حکام نے بتایا تھا کہ حملہ ٹی ٹی پی نے کروایا تھا۔
رسول داوڑ پشاور میں مقیم صحافی و تجزیہ کار ہیں اور ٹی ٹی پی کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ ماضی میں ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کے انٹرویوز بھی کر چکے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ماضی میں ٹی ٹی پی نے واضح بطور پر بیانات جاری کرکے چینی شہریوں پر حملوں سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’ٹی ٹی پی کے بیانات ریکارڈ پر ہیں، جس میں اس تنظیم نے کہا ہے کہ ان کا چین کے ساتھ کوئی سروکار نہیں ہے اور ٹی ٹی پی کی جنگ پاکستان کے اداروں کے خلاف ہے۔‘
تاہم رسول داوڑ کے مطابق کچھ عرصے سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ بی ایل اے کی جانب سے کیے جانے والے حملوں پر غیر رسمی طور پر ٹی ٹی پی کے حامی سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے خوشی کا اظہار کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’رسمی طور پر یہ تو نہیں کہا جا سکتا ہے کہ بی ایل اے اور ٹی ٹی پی مل کر بعض کارروائیوں میں ملوث ہیں یکن دونوں تنظیموں کی جانب سے ایک دوسرے کے لیے ہمدردیاں ضرور موجود ہے۔‘
عبدالسید سویڈن میں مقیم محقق ہیں اور پاکستان و افغانستان کی شدت پسند تنظیموں کے حوالے سے مختلف تحقیقی مقالے لکھ چکے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان میں چینی شہریوں پر حملے بلوچ علیحدگی پسند گروہ کرتے ہیں مگر خیبرپختوانخوا میں بلوچ گروپوں کا کوئی وجود نہیں ہے۔
عبدالسید کے مطابق شانگلہ اور ملاکنڈ ڈویژن کے دیگر اضلاع میں صرف ٹی ٹی پی کا ہی نیٹ ورک موجود ہے، البتہ افغان طالبان کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے یہ مشکل ہے کہ ٹی ٹی پی شانگلہ حملے میں ملوث رہی ہو۔
انہوں نے بتایا: ’ٹی ٹی پی یا افغان طالبان کے کسی دوسرے قریبی گروہ کے ایسے حملے میں ملوث ہونے سے افغان طالبان کی حکومت کو مستحکم بنانے کی کوششوں کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہوسکتا ہے۔‘
عبدالسید کے مطابق بلوچ علیحدگی پسندوں کے علاوہ پاکستان کے بعض علاقوں میں سرگرم داعش ایک دوسرا گروہ ہے، جو چین کے خلاف متواتر حملوں کی دھمکیاں دیتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ داعش نے دسمبر 2022 میں کابل میں بھی چینی شہریوں پر حملہ کیا تھا لیکن شانگلہ یا اس سے ملحقہ اضلاع میں داعش کے آپریشنل نیٹ ورک کا کوئی ثبوت نہیں اور نہ ہی داعش نے وہاں کبھی کوئی حملہ کیا ہے۔
عبدالسید کے مطابق: ’ان وجوہات کی وجہ سے اس حملے میں ملوث گروہ کا تعین کرنا قبل از وقت ہے۔‘
محمود جان بابر پشاور میں مقیم سینیئر صحافی و تجزیہ کار ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ کچھ عناصر چین کو اس خطے میں پاؤں جمانے نہیں دینا چاہتے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ایک جانب اگر ہم دیکھیں تو افغانستان میں نیٹو افواج ناکام لوٹ گئیں، ان کا افغانستان آنے کا مقصد یہاں اس خطے میں اپنے لیے ایک جگہ ڈھونڈنا تھا۔
’امریکہ اور چین کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات ٹھیک نہیں ہے لیکن چین افغانستان، پاکستان اور حتیٰ کہ روس اور انڈیا سے بھی اس خطے میں تعلقات بہتر بنانے کی کوشش میں ہے۔‘
بقول محمود جان بابر: ’چینی شہریوں پر حملوں کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ چین اس خطے میں پاؤں جمانا چاہتا ہے اور چین مخالف قوتوں سے یہ برداشت نہیں ہو رہا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا چینی شہریوں پر حملوں سے پاکستان اور چین کے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں؟ تو محمود جان کا کہنا تھا کہ ’چین کے لیے اس خطے میں پاؤں جمانے کے لیے پاکستان ضروری ہے، لہذا چین نہ پاکستان میں اپنے منصوبے بند کر سکتا ہے اور نہ ہی پاکستان سے تعلقات خراب کر سکتا ہے۔‘
مائیکل کوگل مین امریکہ کے غیر سرکاری تحقیقی ادارے ولسن سینٹر کے جنوبی ایشیا کے سربراہ ہیں۔ چینی اہداف اور شہریوں پر پاکستان میں ہونے والے حملوں کے حوالے سے انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ پاکستان کے لیے ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے کیونکہ ان کا سب سے اچھا دوست سب سے زیادہ نشانے پر ہے۔‘
مائیکل کے مطابق: ’چین کے پاکستان میں منصوبوں اور موجودگی نے مذہبی و لسانی بنیادوں پر بنی شدت پسند تنظیموں کو غصہ دلایا ہوا ہے اور چونکہ چینی اہداف کو پاکستانی فوج کی حمایت بھی حاصل ہے تو ان تنظیموں کا ہدف پاکستانی فوج بھی ہے (اور اسی وجہ سے چینی شہریوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے)۔‘
جب ان سے پوچھا گیا گیا کہ چینی اہداف پر حملے کرنے والے کون ہو سکتے ہیں؟ تو مائیکل کوگل مین نے جواب دیا کہ ٹی ٹی پی نے حملے سے اظہار لا تعلقی کا اعلان کیا ہے لیکن پھر بھی ٹی ٹی پی کے محل و وقوع اور جائے وقوعہ کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ یہ اسی تنظیم کی کارروائی ہوسکتی ہے۔
انہوں نے بتایا: ’اس حملے میں داعش خراسان بھی ملوث ہو سکتی ہے تاکہ ماسکو حملے کے بعد اپنی رفتار جاری رکھ سکیں لیکن عموماً داعش جلدی ذمہ دادی قبول کرتی ہے، لیکن اس حملے کی ابھی تک کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔‘
مائیکل کے مطابق پاکستان اور چین کے تعلقات بہت مضبوط ہیں اور اس طرح کے حملوں سے خراب نہیں ہو سکتے لیکن دونوں ممالک کے مابین پارٹنرشپ کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ضرور ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔