برکتوں کا مہینہ رمضان ہم مسلمانوں نے اپنے لیے زحمت کا مہینہ بنا لیا ہے۔
ہم پر روزے فرض کیے گئے تھے۔ پکوڑے اور سموسے ہم نے خود اپنے اوپر فرض کر لیے ہیں۔
اب ان فرائض میں چیز بالز، سپیگٹی اور سینڈوچز کا بھی اضافہ ہو چکا ہے۔
سالوں پہلے دسترخوان پر پانی کے ساتھ روح افزا کا ٹھنڈا ٹھار جگ موجود ہوا کرتا تھا۔ اب اس کی جگہ منٹ مارگریٹا اور پینا کولاڈا آ گیا ہے، جس سے پائن ایپل سے زیادہ لسی کا ذائقہ آ رہا ہوتا ہے۔
جنہیں اپنی صحت کا بہت زیادہ خیال ہے وہ پکوڑے اور سموسے بھاپ یا ایئر فرائر میں پکا کر کھا رہے ہیں۔
پڑوسی ملک میں پوریاں پانی میں ابالنے کے بعد ائیر فرائر میں پکا کر کھائی جا رہی ہیں۔
جانے قیامت کی کیا کیا نشانیاں ہیں۔ ہمیں تو یہ بھی قیامت کی نشانیوں سے کم نہیں لگ رہیں۔
جب کھانا ہے تو کھل کر کھاؤ۔ پکوڑے تیل میں تلو۔ پلیٹ بھر نہ کھاؤ بس دو چار لے لو۔
چپس اور سموسے ایئر فرائی کر لو۔ وہاں بھی تعداد کا دھیان رکھ لو۔
سالن میں تیل کم ڈال لو۔ تری کھا کر جسم سے دشمنی کیوں کرنا ہے۔
سحری افطاری میں میٹھے مشروبات کا استعمال ترک کر دو۔
ایسا کرنے سے وزن اگر کم نہیں ہو گا تو بڑھے گا بھی نہیں۔
وہ وقت گیا جب لوگ کہا کرتے تھے کہ پیٹ نہیں تو سیٹھ نہیں۔
پیٹ تو سب کا ہوتا ہے لیکن اسے باہر نکالنے کی کیا ضرورت ہے۔ جہاں ہے وہیں رہنے دیں۔ دکھنے میں بھی اچھے لگیں گے اور بیماریوں سے بھی دور رہیں گے۔
جن کا پیٹ باہر نکلا ہوا ہے، ان سے پوچھیں وہ اسے واپس اندر کرنے کے لیے کتنے جتن کر رہے ہیں۔ ایک دو بار وہ جتن کر کے دیکھ لیں پھر آپ بھی کھانا کم کرنے کی طرف آ جائیں گے کہ وہ ان جتنوں سے زیادہ آسان ہے۔
کل ایک عالمِ دین کی ویڈیو دیکھی۔ خواتین کو لتاڑ رہے تھے کہ وہ چار بجتے ہی باورچی خانے میں گھس جاتی ہیں۔ چپٹے آلو کاٹتی ہیں، پکوڑیاں اور گلگلے بناتی ہیں، کھجوریں نئے نئے طریقے سے کاٹتی ہیں۔ دن بھر یوٹیوب پر کھانوں کی تراکیب دیکھ کر عصر سے انہیں بنانا شروع کر دیتی ہیں۔ پورا خاندان افطار کے دسترخوان پر بیٹھا ہے اور وہ کڑاہی میں سموسے تل رہی ہوتی ہیں۔
کوئی ان سے پوچھے کہ وہ یہ سب کس کے لیے کرتی ہیں۔ ان کی ایسی کیا مجبوری ہے کہ انہیں باورچی خانے میں اپنا روزہ کھولنا پڑتا ہے۔
اتنی گہرائی میں یہ جا سکتے تو شائد ہم کسی کی قمیض پر حلوہ لکھا دیکھ کر پاگل نہ ہوتے۔
رمضان شروع ہوتے ہی سب کی فرمائشیں شروع ہو جاتی ہیں۔ کسی کو سحری میں روٹی چاہیے تو کسی کو پراٹھا۔ کسی نے انڈہ کھانا ہے تو کسی نے سالن تو کسی نے بس دہی۔ کسی کو ساتھ پینے کے لیے میٹھی لسی چاہیے تو کسی کو نمکین۔
کچھ گھروں میں میٹھا کھائے بغیر روزہ رکھنا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ میٹھا بھی خواتین کو ہی بنانا پڑتا ہے۔ مرد تو بس میٹھا کھاتے ہیں۔
افطاری کا حال بھی سن لیجیے۔ انہیں افطاری بھی کھانا ہے اور نماز پڑھنے کے بعد کھانا بھی کھانا ہے۔ یہ سب بھی خاتون خانہ ہی بنائیں گی۔
یہ رمضان کی برکتیں سمیٹیں گے اور خاتون خانہ کے بنائے ہوئے پکوان منٹوں میں چٹ کر جائیں گے۔
برکت کے اس مہینے میں یہ کیوں اپنا وقت برتن لگانے یا اٹھانے میں ضائع کریں۔
مزیدار آلو گوشت میں روٹی ڈبو ڈبو کر کھانے کے بعد یہ گھر کی خواتین کو پورا دن باورچی خانے میں گزارنے پر لتاڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ بے چاری خواتین چپ چاپ ان کی باتیں سنتی رہتی ہیں کہ کوئی بات نہیں مرد ہیں۔ مرد کو غصہ آ ہی جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رمضان میں ایک اور اہم مسئلہ نیند کا پورا نہ ہونا ہے۔ افطاری، نماز، کھانا، تراویح، اور پھر گھر سمیٹنے میں آدھی رات ہو جاتی ہے۔
دو گھنٹے بعد سحری بنانے کے لیے اٹھنا ہوتا ہے۔ سحری کھانے اور نماز پڑھنے کے بعد بستر تک آتے آتے صبح کے چھ تو بج ہی جاتے ہیں۔
جن کے بچوں نے سکول جانا ہے وہ اس وقت بھی بستر پر نہیں جا پاتیں۔ جو چلی جاتی ہیں، انہیں پھر چند گھنٹے بعد اٹھ کر روزے کو فاقہ نہ بنانے کے لیے عبادات کرنا پڑتی ہیں۔
بچوں کو شروع سے اسلام کی تعلیمات دینا بھی لازم ہے۔ ان پر روزے تو فرض نہیں پر روزے کی عادت ڈالنے کے لیے چڑی روزہ رکھوا دیتے ہیں۔ دوپہر میں ان کی افطاری کا انتظام بھی کرنا پڑتا ہے۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ خواتین عید کے چاند کا اعلان ہوتے ہی خوشی سے نہال ہو جاتی ہیں۔ گرچہ چاند رات اور عید کے تین دن بھی انتہائی مصروفیت میں گزرتے ہیں لیکن ان کے بعد وہ رات میں آرام سے کچھ گھنٹے سو سکتی ہیں۔
برکتوں کا مہینہ سب کے لیے ایک سا ہونا چاہیے۔ اللہ کی طرف سے تو اس معاملے میں کوئی تخصیص نہیں کی گئی مگر ہم نے اس مہینے کی برکتیں خواتین سے دور کر دی ہیں۔
ان پر تھوڑا رحم کریں۔ زینب کے پاپا سے ہی کچھ سیکھ لیں۔ تھوڑا کام بیوی کو کرنے دیں، تھوڑا خود کر لیں۔ شاید ایسے ہی آپ کا روزہ اور عبادات قبول ہو جائیں۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔