امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے پاکستان کی مدد کرنا امریکہ کی ترجیح ہے۔
بدھ کو ایک نیوز بریفنگ کے دوران ایک صحافی نے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھو ملر سے سوال کیا کہ پاکستان کو ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل کرنے پر امریکی پابندیوں کا خدشہ ہے اور نہ کرنے پر 18 ارب ڈالر کا جرمانہ ہونے کا۔
اس سوال کے جواب میں میتھیو ملر نے جرمانے یا منصوبے کی تکمیل کے نتائج پر تو کوئی بات نہیں کی تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے پاکستان کی صاف توانائی کی صلاحیت میں تقریبا چار ہزار میگاواٹ اضافے میں مدد کی ہے۔
’ہمارے منصوبوں سے ملک کی بجلی کی پیدوار میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے اور ان منصوبوں کی مدد سے آج لاکھوں پاکستانیوں کو بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔‘
امریکی ترجمان نے کہا کہ ’امریکہ پاکستان گرین الائنس کے ذریعے، جو ہمارے دونوں ممالک کے درمیان ایک انقلابی اقدام ہے، ہم آج کے سب سے اہم ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔ خاص طور پر پانی کے انتظام، آب و ہوا سے متعلق سمارٹ زراعت اور قابل تجدید توانائی کے حوالے سے۔‘
پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبہ حالیہ دنوں میں اس وقت خبروں کی زینت بنا جب جنوبی ایشیا کے لیے امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ ڈونلڈ لو نے گذشتہ ہفتے کہا کہ امریکہ پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے حق میں نہیں ہے۔
ڈونلڈ لو نے گذشتہ ہفتے واشنگٹن ڈی سی میں وزارت خارجہ کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان اور ایران گیس پائپ لائن منصوبے سے متعلق سوال کے جواب میں کہا تھا کہ وہ ’اس پائپ لائن کو روکنے کے لیے امریکی حکومت کے مقصد کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔‘
ڈونلڈ لو نے کمیٹی میں پوچھے گئے سوال پر کہا تھا کہ اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے فروری میں ایران پاکستان (آئی پی) گیس پائپ لائن کے 80 کلومیٹر طویل حصے کی تعمیر کی منظوری کے بعد ان کا ملک اس منصوبے کی تعمیر روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔
گذشتہ روز بھی امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا تھا کہ امریکہ پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی حمایت نہیں کرتا اور ایران کے ساتھ کاروبار کرنے سے امریکی پابندیوں کی زد میں آنے کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔
پاکستان نے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن سے متعلق امریکی سفارت کار ڈونلڈ لو کے بیان پر کہا ہے کہ وہ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے پرعزم ہے۔
21 مارچ 2024 کو پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’پاکستان نے بارہا پاکستان ایران گیس پائپ لائن پر اپنے عزم کی تجدید کی ہے اور پاکستان ایران گیس پائپ لائن پر فیصلہ حکومت پاکستان کا اپنا فیصلہ ہو گا۔‘
ترجمان نے مزید کہا تھا کہ ’یہ پائپ لائن پاکستان اپنے علاقے میں تعمیر کر رہا ہے، اس وقت پہلا نکتہ گیس پائپ لائن کی تعمیر ہے، ہم اس تعمیر کے لیے پر عزم ہیں۔‘
اکنامک سروے 21-2020 کے مطابق پاکستان اپنی بجلی کی بڑھتی ہوئی ضروریات پوری کرنے کے لیے پانی، ایل این جی، فرنس آئل، کوئلہ، قدرتی گیس، ایٹمی، ہوا، شمسی توانائی اور بیک گیس سے بجلی پیدا کر رہا ہے۔
ماہر ماحولیات اور توانائی قیصر اعجاز نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’ 5-2004 میں پاکستان نے کچھ اہداف مقرر کیے تھے، جن میں 2015 تک ایران سے گیس پائپ لائن کی تکمیل، کوئلے سے 2000 میگا واٹ بجلی کی پیداوار، 2011 تک ایل این جی کا حصول اور پانی سے بجلی کی پیداوار میں مزید اضافے شامل تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ان تمام اقدامات سے پاکستان کی بجلی کی پیداوار میں 70 ہزار میگا واٹ کا اضافہ متوقع تھا، لیکن ان میں سے کچھ بھی نہیں ہو سکا۔‘
رواں ماہ کے آغاز میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امورکو بتایا گیا کہ بجلی، ادویات اور کھانے پینے کی اشیا پر پابندی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان ایران سے 104 میگا واٹ سستی بجلی خرید رہا ہے اور مزید 100 میگا واٹ بجلی خریدنے کے لیے بھی بات چیت چل رہی ہے۔
پاکستان کو ایران سے قدرتی گیس درآمد کرنے میں مدد ملے کے لیے دونوں ممالک نے 1995 میں پائپ لائن کی تعمیر کے لیے ایک ابتدائی معاہدہ کیا تھا۔
اس منصوبے میں انڈیا کو بھی شامل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی، تاہم نئی دہلی کی انتظامیہ نے قیمتوں اور سکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے 2009 میں منصوبے سے دوری اختیار کر لی تھی۔
ایران نے اپنے حصے کی پائپ لائن مکمل کر چکا ہے اور اگر منصوبہ سال 2024 تک مکمل نہ ہوا تو ایران کو حق حاصل ہوگا کہ وہ پاکستان کے خلاف 18 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کرے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔