یہودیت میں عورت کے بارے میں دو نظریات ہیں۔ ایک تو دنیا کے معاملے میں اس کا عملی کردار ہے اور دوسرا اس کا روحانی مقام ہے۔ روحانی ہونے کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ خدا سے زیادہ قریب ہے۔
یہودیت میں عورت معاشی طور پر مرد پر انحصار کرتی ہے۔ وراثت میں اسے کوئی جائیداد نہیں ملتی، لیکن اگر شوہر کے مرنے کے بعد وہ جائیداد کی مالک بن جائے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ قبیلے کے اندر ہی کسی سے دوسری شادی کرے تاکہ جائیداد خاندان ہی میں رہے۔
قدیم یہودی سامراج میں خاندان کی شناخت ماں کے ساتھ ہوتی تھی ورنہ اگرچہ اس میں مرد کی بھی شمولیت ہوتی تھی، خدا اور حضرت ابراہیم کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا اس میں اس میں مرد کو عورت پر بلاواسطہ فوقیت حاصل ہو گئی تھی۔ توریت کے قدیم دور میں جس سماج کا ذکر ملتا ہے اس میں خاندان اور اس کے ورثے کے سلسلے میں عورت اور مرد کو اہمیت حاصل ہے۔
عہدِ وسطیٰ کے یورپ میں عورت کو بائبل اور تالمود کی تعلیمات کے تحت دیکھا جاتا تھا۔ یہودی جس غیر یہودی معاشرے میں رہتے تھے اس میں عورت کا کام خاندان کی خدمت کرنا تھا۔ اسی کو یہودی معاشرے میں بھی تسلیم کر لیا گیا، اگرچہ یہودیت میں عورت کو اعلیٰ مقام حاصل تھا، لیکن غیر یہودی معاشرے میں رہنے کی وجہ سے اس کے اثر سے اس کا سماجی مرتبہ بھی کم ہو گیا۔
یہودی مذہب میں دو فرقے ہو گئے ہیں، ’اشکنازی‘ جن کا تعلق مشرقی یورپ اور جرمنی سے تھا جبکہ ’سفاردی‘ یہودی وہ تھے جنہیں 1492 میں سپین سے نکالا گیا تھا۔
اشکنازی فرقے میں عوت مردوں کی طرح رہتی تھی۔ عہد وسطیٰ میں عورت کو یہ اجازت مل گئی تھی کہ وہ مذہبی تعلیم حاصل کر سکتی تھی اور یہودی عبادت گاہوں میں جاکر مذہبی رسومات کی ادائیگی اور عبادت میں حصہ لے سکی تھی۔ قدیم روایت کے تحت عبادت گاہ میں عورتیں مردوں سے علیحدہ عبادت کر سکتی تھیں، جبکہ کچھ عبادت گاہوں میں عورتوں کے لیے جداگانہ جگہ ہوتی تھی۔ عبادت گاہوں میں وہ مردوں کی عبادت میں شامل ہو جاتی تھیں یا علیحدہ سے اپنی عبادت کرتی تھی۔ مذہبی قوانین کے تحت شادی سول معاہدہ نہیں ہوتی تھی، بلکہ یہ شوہر اور بیوی کے درمیان مذہبی عہد ہوا کرتا تھا جس کی حیثیت مقدس ہوتی تھی۔
1492 میں جب یہودیوں کو سپین سے نکالا گیا تو اس بحرانی ماحول میں عورت کی ذمہ داریاں بڑھ گئی اور اس نے یہودی رسم و رواج کو برقرار رکھ کر مذہبی شناخت کے تسلسل کو قائم رکھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہودی مذہبی راہنماﺅں نے گھریلو تشدد، شادی اور طلاق کے بارے میں اصول اور قوانین بیان کیے ہیں۔ یہودی مذہب میں شادی ایک انتہائی اہم رسم ہے۔ اس لیے مذہبی راہنماﺅں نے اس کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ اس کے علاوہ عورت اپنے شوہر کی سختیوں سے تنگ آکر اگر طلاق لینا چاہتی تھی وہ عدالت سے رجوع کر سکتی تھی اس کے علاوہ وہ عورت جس کو اپنے شوہر کی شکل و صورت پسند نہیں ہوتی تھی وہ بھی طلاق کے لیے عدالت سے رجوع کر سکتی تھی، لیکن طلاق کے معاملات اتنی افراط سے رونما نہیں ہوتے تھے، کیونکہ یہودی مذہب میں عورت کو زدو کوب کرنا بہت ہی ناپسندیدہ عمل تھا۔ یہاں پر یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ یہودی معاشرے میں بیوی سے مار پیٹ کرنے کی وجہ سے عورت مرد سے تو طلاق لینے کا حق رکھتی تھی، لیکن بیوی کی شکایت پر اسے جرمانہ بھی ادا کرنا ہوتا تھا۔
عورت کو ایک حد تک تعلیم حاصل کرنے کی آزادی تھی، تاکہ وہ گھر کے اخراجات اور آمدنی کا حساب رکھ سکے اور اس کی روز مرہ کی زندگی میں آسانی پیدا ہو۔ مذہبی تعلیم کو بھی اتنا ہی اہم گردانا جاتا تھا۔
یہودی عورتیں عیسائی عورتوں کو سود پر قرضے بھی دیتی تھیں اور اس وقت کی یہودی عورتیں دائی کا کام چرخہ کاٹنا اور کپڑے بنے کے پیشے بھی اختیار کرتی تھیں، تاکہ اپنے گھریلو اخراجات میں بہتری لا سکیں۔
یہودی مذہب میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ ایک جانب قدامت پرست ہیں جو مذہب کی قدیم تعلیمات کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں جس میں عورت کو بھی اسی نقطۂ نظر سے ایک مقام دیا گیا، جبکہ دوسری جانب جدیدیت کے حامل ہیں اور تبدیل ہوتے ہوئے معاشرے میں عورت کو قدیم رسم و رواج سے آزادی دلا کر اس کی ذات کو اہمیت کا حامل بنانا چاہتے ہیں۔
موجودہ زمانے میں امریکہ اور یورپ کے سماج میں رہتے ہوئے یہودیوں نے خود کو مغربی تہذیب سے ہم آہنگی پیدا کر لی ہے، لیکن انہوں نے اپنی مذہبی شناخت کو برقرار رکھا ہے اور ان کی عورتیں مذہبی پابندیوں سے آزاد ہو کر دنیاوی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتی ہیں، لیکن بہت سے مشرقی ممالک میں جہاں یہودی آباد ہیں وہاں قدامت پرستی کا تسلط ہے۔ اسرائیل میں بھی قدامت پرست مذہبی حلقے عورت کو دوبارہ سے مذہبی تعلیمات کے تحت اس کے مقام کا تعین کرنا چاہتے ہیں۔