امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے دور صدارت میں 29 مارچ 2024 کو پہلی مرتبہ کسی بھی پاکستانی وزیر اعظم سے بذریعہ خط رابطہ کیا مگر اس میں نہ تو ان کو وزیر اعظم بننے پر مبارکباد دی اور نہ ہی دہشت گردی کا ایک بار بھی ذکر کیا۔
پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے 31 مارچ 2024 کو امریکی صدر جو بائیڈن کے خط کا جواب دیا مگر اس خط میں بھی دہشت گردی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اب تک کے تین سال سے زیادہ کے صدارتی دور کے دوران کسی بھی پاکستانی وزیر اعظم سے رابطہ نہیں کیا تھا۔
2018 میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے وزیر اعظم بننے اور 2022 میں صدر پاکستان مسلم لیگ نواز شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے پر بھی مبارک باد کی نہ کال آئی نہ ہی کوئی خط۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
23 ستمبر 2023 کو پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف اور امریکی صدر جو بائیڈن کی ملاقات اقوام متحدہ کے 77ویں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ہوئی تھی لیکن وہ اس وقت ہوئی جب امریکی صدر کی جانب سے ایک تقریب میں انہیں مدعو کیا گیا تھا۔
امریکی صدر نے پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کے انعقاد کے چار ہفتوں بعد یہ خط لکھا ہے۔
امریکی صدر بائیڈن نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان شراکت داری دنیا اور ہمارے عوام کی سلامتی یقینی بنانے میں نہایت اہم ہے۔
خط میں کہا گیا کہ صحت عامہ کے تحفظ، معاشی ترقی اور سب کے لیے تعلیم مشترکہ وژن ہے، جسے مل کر فروغ دینے پر بات کی گئی۔
خط میں کہا گیا کہ امریکہ پاکستان گرین الائنس فریم ورک سے ماحولیاتی بہتری کے لیے ہم اپنے اتحاد کو مزید مضبوط کرتے ہوئے پائیدار زرعی ترقی، آبی انتظام اور 2022 کے سیلاب کے تباہ کن اثرات سے بحالی میں پاکستان کی معاونت جاری رکھیں گے۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر انسانی حقوق کے تحفظ اور ترقی کے فروغ کے لیے پرعزم ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہیں بھی مبارک باد کا لفظ شامل نہیں تھا۔
اس خط کے بعد سوشل میڈیا پر بھی کافی تبصرے ہوتے رہے اور اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ اس خط میں نو منتخب وزیر اعظم کو امریکی صدر کی جانب سے مبارکباد نہیں دی گئی۔
صحافی شفیق قریشی نے ایکس کی پوسٹ میں لکھا کہ امریکی صدر کے خط پر یہ بات ہو رہی ہے مبارکباد دی گئی اس پر حیران ہوں کیوں کہ پورے خط میں مبارکباد کا لفظ ہی استعمال نہیں ہوا۔
یوسف نذر کا کہنا تھا کہ الیکشن کے چار ہفتوں بعد امریکی صدر نے خط لکھا مگر مبارکباد نہیں دی گئی۔
140 الفاظ پر مشتمل خط میں لفظ دہشت گردی کا بھی ایک بار بھی استعمال نہیں ہوا۔ تاہم دونوں ممالک دہشت گردی سے نمٹنے کی کوشش گذشتہ کئی دہائیوں سے مل کر کر رہے ہیں۔
اس کا ذکر ایک ایسے وقت میں نہ ہونا جب پاکستان میں ایک بار پھر دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں اور پاکستان، افغانستان کی حکومتیں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کر رہی ہیں کئی مبصرین کے لیے حیران کن ہے۔
انڈین صحافی سدھانت سبل نے لکھا کہ امریکی صدر نے اپنے خط میں انسداد دہشت گردی کا ذکر ہی نہیں کیا۔
اسی طرح پورے خط میں شہریوں کی سکیورٹی کا لفظ بھی صرف ایک بار استعمال ہوا۔
اس حوالے سے دفاعی تجزیہ کار جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی کا کہنا تھا کہ ’جو آپ کرتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کیا چاہتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سب کو معلوم ہے کہ ’پاکستان کو فیٹف سے نکلنے کے لیے کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور دوسری جانب عالمی مالیاتی ادارہ کیسے پاکستان کو نچوڑ رہا ہے اور اپنی سخت شرائط منوا رہا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح ڈونلڈ لو کے حالیہ بیان سے یہ بھی سامنے آیا کہ امریکہ پاکستان کو ایران سے تجارت نہیں کرنے دے گا اور نہ ہی گیس پائپ لائن کا منصوبہ کرنے دینا چاہتا ہے۔
جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی کے مطابق امریکہ کو پاکستان کے افغانستان کی عارضی حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات منظور نہیں۔
خط میں دہشت گردی کا تذکرہ نہ ہونے پر دفاعی تجزیہ کار شہزاد چوہدری کا کہنا تھا ’کانگریس کی سماعتوں میں پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کا ذکر ہوتا ہے اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان اس دہشت گردی سے گزر رہا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ کانگریس کی کمیٹیوں میں تو یہ ذکر ہوتا ہے مگر بطور امریکی صدر انہیں یہ دہشت گردی پاکستان کا اندرونی مسئلہ لگتا ہے اور اس سے امریکہ کو خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔
اس حوالے سے مزید تبصرہ کرتے ہوئے شہزاد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’امریکہ کا دہشت گردی پر تذکرہ نہ کرنے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی ذمہ داری نہیں نہ وہ وہاں خود کو جوڑنا چاہتے ہیں۔‘
ان کی رائے ہے کہ امریکہ نے پاکستان کی مدد کرنے کی بجائے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کی خواں وہ فیٹیف کا معاملہ ہو یا معاشی صورت حال۔
امریکی خط کا بڑا حصہ گرین الائنس پر مشتمل رہا جس میں موسمیاتی تبدیلی، زراعت اور سیلاب سے متعلق بات کی گئی۔
گرین الائنس پر نعیم لودھی کا کہنا تھا کہ یہ وقت کی ضرورت ہے مگر اس بڑا مسئلہ پاکستان کے لیے یہ ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں، تجارت کی اجازت اور سی پیک آگے بڑھے۔
دوسری جانب پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی 31 مارچ 2024 کو امریکی صدر کو جوابی خط لکھا۔
وزیر اعظم آفس سے جاری ہونے والے خط کے خلاصے کے مطابق شہباز شریف کے جوابی خط کا آغاز بھی موسمیاتی تبدیلی، زراعت، صحت اور تعلیم سے ہی ہوا۔
شہباز شریف نے خط میں گرین الائنس کے اقدام کی تعریف کی لیکن اس پورے مکتوب میں بھی دہشت گردی پر کہیں بات نظر نہیں آئی۔