اقوام متحدہ میں سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کا مکمل رکن بننے کے لیے فلسطین کی درخواست پر سلامتی کونسل میں ووٹنگ جمعرات یا جمعہ کو متوقع ہے۔
اس سے قبل کئی سفارتی ذرائع نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ ووٹنگ جمعرات کو ہو گی لیکن کچھ رکن ممالک کی جانب سے جمعہ کو ووٹ دینے کے مطالبے کے بعد صورت حال بدل گئی ہے۔
کئی سفارتی ذرائع کے مطابق بدھ کی شب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں لیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ میں سلووینیا کے سفیر سیموئیل زبوگر نے صحافیوں کو بتایا کہ ’یہ ابھی تک غیر یقینی میں ہے۔‘
تاہم فلسطینی ایلچی ریاض منصور نے کہا کہ ’ووٹنگ کل تین بجے ہو گی۔‘
مالٹا کے سفارتی مشن، جس نے اپریل میں سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالی تھی، نے بھی ابھی تک کسی شیڈول کی تصدیق نہیں کی ہے۔
تاہم سفارتی ماہرین كا كہنا ہے كہ تاریخ کچھ بھی ہو، فلسطینی رکنیت کی یہ كوشش اسرائیل كے سب سے بڑے حمایتی امریکہ کی مخالفت کی وجہ سے ناکام نظر آتی ہے۔
فلسطین، جسے 2012 سے عالمی ادارے میں مبصر کا درجہ حاصل ہے، مکمل رکنیت حاصل کرنے کے لیے برسوں سے لابنگ کر رہا ہے جو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔
اقوام متحدہ کا رکن ریاست بننے کی کسی بھی درخواست کو پہلے سلامتی کونسل سے گزرنا ہو گا جہاں اسرائیل کے اتحادی امریکہ كو ویٹو کی طاقت حاصل ہے اور پھر جنرل اسمبلی سے اس کی توثیق کی جائے گی۔
غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کی روشنی میں، فلسطینیوں نے گذشتہ ہفتے 2011 کی اقوام متحدہ کی رکنیت کی درخواست کو بحال کیا تھا جس نے سلامتی کونسل کو باضابطہ نظرثانی کا عمل شروع کرنے پر مجبور کیا۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے فلسطینی پناہ گزینوں کے ادارے یو این آر ڈبلیو اے کے سربراہ نے كہا ہے كہ غزہ کی پٹی میں انسانی ساختہ قحط اپنی گرفت مضبوط کر رہا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز كے مطابق یو این آر ڈبلیو اے کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے 15 رکنی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا: ’آج، یو این آر ڈبلیو اے کی کارروائیوں کو ختم کرنے کی ایک مکارانہ مہم جاری ہے، جس کے بین الاقوامی امن اور سلامتی پر سنگین مضمرات مرتب ہوں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے) غزہ، مغربی کنارے، اردن، شام اور لبنان میں لاکھوں فلسطینیوں کو تعلیم، صحت اور امداد فراہم کرتی ہے۔
غزہ پر چھ ماہ قبل اسرائیلی جارحیت شروع ہونے کے بعد سے، اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام نے یو این آر ڈبلیو اے کو امدادی کارروائیوں کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا ہے۔
لازارینی نے کہا کہ ’غزہ میں انسانی ساختہ قحط اپنی گرفت کو سخت کر رہا ہے۔ شمال میں، نوزائیدہ اور چھوٹے بچے غذائی قلت اور پانی کی کمی سے مرنا شروع ہو گئے ہیں۔ سرحد کے اس پار خوراک اور صاف پانی کا انتظار ہے۔ لیکن یو این آر ڈبلیو اے کو یہ امداد پہنچانے اور جان بچانے کی اجازت نہیں دی گئی۔‘
اسرائیل نے طویل عرصے سے یو این آر ڈبلیو اے کے بارے میں شکایت کی ہے اور جنوری میں غزہ میں اس کے 13,000 عملے کے ایک درجن ارکان پر سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا تھا جس میں 1,200 افراد مارے گئے تھے۔
غزہ کے محکمہ صحت کے حکام کے مطابق اسرائیل كی جارحیت میں اب تک 33 ہزار سے زیادہ افراد اپنی جانوں سے جا چکے ہیں جن میں زیادہ تعداد عام شہریوں، خواتین اور بچوں كی ہے۔