نصف صدی قبل افغانستان سے فرار ہو کر ہمسایہ ملک پاکستان آنے والے والدین کے ہاں پیدا ہوا ایک 18 سالہ نوجوان کراچی میں پولیس کے رحم و کرم پر تھا جس نے نقدی، فون اور موٹر سائیکل لے کر اسے جلاوطنی کے مرکز بھیج دیا تھا۔
انہوں نے خوف اور پریشانی میں ایک ایسی جگہ پر تین دن گزارے، پھر انہیں افغانستان واپس بھیج دیا گیا، جہاں وہ پہلے کبھی نہیں گئے تھے۔ ان کے پاس کپڑوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
یہ نوجوان کم از کم ان 17 لاکھ افغانوں میں سے ایک ہیں جو اس لیے پاکستان میں رہ رہے ہیں کہ ان کا ملک دہائیوں سے جنگ کا شکار ہے۔
لیکن وہ قانونی اجازت کے بغیر وہاں رہ رہے ہیں، اور اب تارکین وطن کے خلاف سخت کریک ڈاؤن میں انہیں پکڑا جا رہا ہے۔ جن کے متعلق پاکستان کا کہنا ہے کہ انہیں ملک چھوڑنا ہوگا۔
گذشتہ سال اکتوبر میں کریک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد سے اب تک تقریباً چھ لاکھ افغان وطن واپس جا چکے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ کم از کم دس لاکھ افراد پاکستان میں چھپے ہوئے ہیں۔
وہ عوام کے سامنے نہیں آتے، اپنی ملازمتیں چھوڑ چکے ہیں اور شاذ و نادر ہی اپنے محلے سے باہر نکلتے ہیں کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ انہیں بھی ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔
ان کے لیے پیسے کمانا، رہائش کرائے پر لینا، کھانا خریدنا یا طبی امداد حاصل کرنا مشکل ہے کیونکہ انہیں پولیس کے ہاتھوں پکڑے جانے یا پاکستانیوں کی جانب سے حکام کو رپورٹ کیے جانے کا خطرہ رہتا ہے۔
نوجوان، جو 15 سال کی عمر سے ایک آٹو شاپ میں مکینک کے طور پر کام کر رہا تھا، نے گرفتاری اور ملک بدری کے خوف سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی۔
انہوں نے اسی دستاویز کے لیے درخواست دی تھی جو ان کے اہل خانہ کے پاس ہے، لیکن انہیں یہ نہیں ملے گا۔ پاکستان افغان پناہ گزینوں یا ان کے بچوں کے لیے کوئی دستاویز جاری نہیں کر رہا۔
نوجوان نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ’میری زندگی یہاں (گزری) ہے، افغانستان میں میرا کوئی دوست یا خاندان نہیں ہے۔
انہوں نے اس وقت ملک میں تارکین وطن کے خلاف چھاپوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ’ میں جلد از جلد (پاکستان) واپس آنا چاہتا ہوں، لیکن پہلے حالات معمول پر آنے چاہییں۔‘
افغانستان میں داخل ہونے پر طالبان حکام نے انہیں نئی زندگی شروع کرنے کے لیے 2500 افغانی (34 ڈالر) دیے تھے۔ انہوں نے اسے شمال مشرقی صوبہ تخار بھیج دیا، جہاں وہ مساجد اور مدارس میں سوتا تھا کیونکہ وہ ایسے کسی شخص کو نہیں جانتا تھا جس کے پاس رہ سکے۔
انہوں نے اپنا وقت کرکٹ اور فٹ بال کھیل گزارا، اور اپنے اہل خانہ کو فون کرنے کے لیے فون دوسرے لوگوں سے لیتے رہے۔
چھ ہفتے بعد وہ تخار سے افغانستان کے دارالحکومت کابل اور پھر مشرقی صوبہ ننگرہار گئے۔ وہ پاکستان میں اپنے بھائی کی جانب سے کرائے پر لیے گئے انسانی سمگلروں سے ملنے سے پہلے اندھیرے میں کئی گھنٹے پیدل چلتے رہے۔
ان کا کام انہیں پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور پہنچانا تھا جس کی قیمت 70 ڈالر تھی۔
وہ اپنے خاندان کے ساتھ دوبارہ مل کر پرسکون محسوس کرتے ہیں لیکن انہیں خطرہ ہے۔
پولیس نے ان کے پڑوس کے گھروں پر نمبر لگائے ہیں تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ وہاں کتنے لوگ رہتے ہیں اور کتنوں کے پاس دستاویزات ہیں۔
آپریشن شروع ہونے کے بعد سے سینکڑوں افغان خاندان علاقہ چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ اب یہاں اتنے لوگ نہیں ہیں جن میں چھپا جا سکے۔
کراچی کے اس طرح کے علاقوں میں ہزاروں افغان آسانی سے رہ لیتے ہیں۔ لیکن ان کے پاس نکاسی آب کا کوئی نظام، صحت یا تعلیم کی سہولیات نہیں ہوتیں۔
سڑکوں پر خواتین بہت کم ہیں، اور جو باہر نکلتی ہیں وہ برقعہ پہنتی ہیں، جو اکثر نیلے رنگ کا ہوتا ہے جو افغانستان میں عام طور پر دیکھا جاتا ہے۔
کراچی میں افغان برادری کے ساتھ طویل عرصے سے کام کرنے والی وکیل منیزہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ ایسے خاندانوں کی کئی نسلیں ہیں جن کے پاس دستاویزات نہیں ہیں۔ اس کے بغیر، وہ سکولوں یا ہسپتالوں جیسی بنیادی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔
کریک ڈاؤن سے پہلے ہی افغان ریڈار پر تھے اور افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ پاکستان تمام افغانوں کو ملک بدر کرنا چاہتا ہے، یہاں تک کہ ان لوگوں کو بھی جن کے پاس دستاویزات ہیں۔
تاہم پاکستان کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔
کراچی کے ایک اور علاقے میں جہاں زیادہ تر افغان آبادی ہے، پولیس کے پہنچنے پر لوگ منتشر اور گلیوں میں غائب ہو جاتے ہیں۔ مخبروں کا ایک نیٹ ورک پولیس کے آنے کی خبر دیتا ہے۔
کاکڑ پاکستان میں رہنے والے افغانوں کی حالت زار سے مایوس ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’بعض اوقات ان کے پاس کھانا نہیں ہوتا اس لیے ہم اقوام متحدہ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان کی مدد کرے۔‘
پیسے کمانے یا طبی امداد حاصل کرنے کے لیے، وہ پہلے ایسے محلوں سے کراچی کے مرکز تک سفر کرتے تھے، لیکن اب وہ سفر کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔
وکیل کا مزید کہنا تھا کہ ان کی گرفتاری کا بھی امکان ہے۔
کچھ لوگ منیزہ کاکڑ کو جنرل ضیا الحق کے زمانے کے اپنے شناختی کارڈ دکھاتے ہیں۔ جو ایک فوجی آمر تھے اور 1979 میں افغانستان پر سوویت حملے کے وقت پاکستان کے حکمران تھے۔
’وہ حیران ہیں کہ 40 سال بعد بھی ان کے پاس شہریت کیوں نہیں ہے۔ وہ اپنے پتہ کسی کو نہیں بتا سکتے، وہ باہر نہیں جاتے۔ وہ کسی اور کے نام پر کرائے پر لی گئی جائیداد میں رہتے ہیں۔‘
منیزہ کاکڑ نے کہا کہ پاکستان میں ایسے بچے پیدا ہوئے جو بڑے ہو چکے ہیں اور ان کے اپنے بچے ہیں۔ ’ان بچوں کے پاس کوئی شناختی کاغذ نہیں ہے۔ ان سب کا مستقبل غیر یقینی ہے۔‘
سید حبیب الرحمٰن کراچی میں افغان قونصلیٹ جنرل میں میڈیا کوآرڈینیٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ ان برادریوں میں کافی وقت گزارتے ہیں۔
رحمٰن کہتے ہیں کہ ’خالی گھر ہیں، خالی دکانیں ہیں۔ بازار خالی ہیں۔ جن پاکستانیوں کو ہم جانتے ہیں وہ اس سے متفق نہیں ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ہمارے ساتھ اچھا وقت گزارا ہے۔ ان کا کاروبار کم ہو گیا ہے کیوں کہ بہت سے افغان خاندان ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اے پی نے جن افغانوں سے انٹرویو کیا ان کے پاس اپنی شہریت حاصل نہ کرنے کی مختلف وجوہات تھیں۔
کچھ کا کہنا تھا کہ وہ بیرون ملک کام کر رہے ہیں۔ دوسروں کے پاس وقت نہیں تھا۔ کچھ نے نہیں سوچا تھا کہ پاکستان انہیں کبھی باہر نکال دے گا۔
32 سالہ محمد خان مغل کراچی میں پیدا ہوئے اور ان کے تین بچے ہیں۔ کریک ڈاؤن شروع ہونے سے وہ تندور کا کاروبار چلاتے تھے۔ پولیس نے انہیں اسے بند کرنے کو کہا۔
انہوں نے بتایا کہ ’میرے گاہکوں نے شکایت کرنا شروع کر دی کیوں کہ وہ مجھ سے روٹی نہیں خرید سکتے تھے۔‘
وہ اور ان کے اہل خانہ چھاپوں سے بچنے کے لیے صوبہ بلوچستان کے جنوب مغربی شہر کوئٹہ چلے گئے تھے۔
وہ چند دن بعد کراچی واپس آئے اور جانے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
انہوں نے فخر اور اداسی سے کہا کہ ’یہ میرا گھر ہے، یہ میرا شہر ہے۔ ‘