پشاور کے آل سینٹس چرچ میں پنجابی گیتوں کی آواز گونج رہی ہے۔ تمام بینچ عبادت گزاروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ سب کی نگاہیں پادری پر ٹکی ہوئی ہیں جو صبر اور تحمل کا درس دے رہے ہیں۔ ہر اتوار کی طرح یہ سروس بھی معمول کے مطابق اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے۔
کوہاٹی میں واقع اس گرجا گھر کے عین باہر اتوار بازار کا شور و غل ہے، مگر اس کے مرکزی دروازے کے اندر داخل ہوتے ہی ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے سب آوازیں رک سی گئی ہوں۔ ایک عجیب سا سکون طاری ہو جاتا ہے۔ وہ سکون جو شاید ہر عبادت گاہ میں پایا جاتا ہے۔
گرجاگھر کی قد آدم سفید دیواریں اور مسجد نما گنبد اور مینار پشاور میں پائی جانے والی مذہبی ہم آہنگی کی ایک واضح نشانی رہی ہیں، لیکن 22 ستمبر 2013 کو اس گرجا گھر پر ہونے والے خودکش حملے نے نہ صرف دیواروں پر اپنے نشان چھوڑ دیے بلکہ لوگوں کو بھی ایسے زخم دیے جو چھ سال بعد بھی نہیں بھرے اور شاید زندگی بھر ان کے ساتھ رہیں گے۔
پشاور کی مسیحی برادری کے لیے ستمبر کا وہ ایک معمول کا اتوار تھا۔ آل سینٹس چرچ میں لوگ صبح 10 بجے کی عبادت کے لیے حسبِ معمول گرجا گھر آئے، لیکن پھر ان میں سے درجنوں افراد اپنے گھروں کو واپس نہ لوٹ سکے۔
عبادت کے بعد ایک خاندان شکر گزاری کا کھانا تقسیم کر رہا تھا۔ سکیورٹی پر تعینات گارڈز بھی کھانے میں شریک ہونے آگئے کہ 11 بجکر 43 منٹ پر دو خودکش بمباروں نے گرجا گھر کے کمپاؤنڈ میں داخل ہو کر حملہ کر دیا۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس حملے میں 81 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ تاہم گرجا گھر کے پادری کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 94 تھی۔
آج چھ سال بعد گرجا گھر کو پہنچنے والے نقصان کو تو بڑی حد تک ٹھیک کر لیا گیا ہے لیکن کمپاؤنڈ میں واقع پادری کے دفتر کی دیواروں پر چھروں کے نشانات اور حملے کے وقت یعنی 11 بجکر 43 منٹ پر رک جانے والی گھڑی اب بھی یادگار کے طور پر موجود ہے۔
’زخم اب بھی تازہ ہیں‘
اس گھڑی کی طرح عقیل عارف اور ان کے خاندان کی زندگی بھی تھم کے رہ گئی ہے۔
عقیل اور ان کے کم عمر دو بیٹے اس حملے میں بری طرح زخمی ہوئے تھے۔ بیٹوں کو فریکچر آئے جبکہ عقیل کے سر میں چوٹ کے باعث ان کے جسم کا دایاں حصہ مفلوج ہوگیا، ان کی بینائی اور یادداشت پر بھی اثر ہوا اور بائیں ٹانگ میں لگنے والے چھروں سے اتنا نقصان ہوا کہ ڈاکٹروں کو آخرکار کچھ ماہ بعد ان کی ٹانگ کاٹنی پڑی۔
عقیل کے بیٹے تو وقت کے ساتھ صحت یاب ہوگئے، لیکن وہ خود اب بھی چل پھر نہیں سکتے اور نہ ہی ٹھیک سے زیادہ بات کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حادثے کے بعد عقیل کو اپنی سرکاری نوکری سے طبی بنیاد پر ریٹائرمنٹ لینی پڑی جبکہ ان کی مکمل دیکھ بھال کے لیے ان کی اہلیہ جین کو بھی ملازمت چھوڑنی پڑی۔
جین کے مطابق عقیل کے اب تک 13 سے 17 بڑے آپریشن ہو چکے ہیں اور ان کا علاج اب بھی جاری ہے۔
انہوں نے بتایا: ’ہمارے لیے اب تک وہ زخم تازہ ہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ کل کی بات ہو۔ میرے شوہر واحد ایسے مریض ہیں جو اب تک بستر پر ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ گھر کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ عقیل کی پینشن ہے جو محض 22 ہزار روپے ہے، جس میں سے کم سے کم 10 ہزار تو ہر ماہ ان کی دواؤں پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے اس خاندان کی جیب مزید تنگ پڑتی جا رہی ہے۔
عقیل اور ان کی طرح کے دیگر متاثرین کا کہنا ہے کہ شروع کے دنوں میں حکومت نے زخمی ہونے والوں میں دو لاکھ روپے تقسیم کیے جبکہ سندھ حکومت اور فلاحی اداروں کی جانب سے بھی امداد کے وعدے کیے گئے تاہم یہ وعدے وفا نہیں ہوئے۔
’علاج بہت مہنگا ہے‘
خرم یعقوب سہوترا اُس بدقسمت دن دھماکے کے مقام کے بہت قریب کھڑے تھے۔ ان کو سات چھرے لگے جن سے ان کے چہرے کا دایاں حصہ بری طرح زخمی ہوا۔ ان کے چہرے کی ہڈیاں فریکچر ہوگئیں جبکہ ایک آنکھ ضائع ہوگئی۔
خرم کے بھی کئی آپریشن ہو چکے ہیں اور دو چھرے اب بھی ان کے جسم میں ہیں۔ ڈاکڑوں نے ان کو مکمل صحت یاب ہونے کے لیے اندازاً چھ سے آٹھ سال کا وقت دیا ہے۔
عقیل کی طرح ان کا بھی ماننا ہے کہ اگر وقت پر ان کو بیرونِ ملک علاج کے لیے لے جایا جاتا تو شاید ان کی آنکھ کی بینائی بحال ہو پاتی اور آج وہ صحت یاب ہوتے۔
ان کا علاج اب بھی جاری ہے اور ان کو باقاعدہ ہر ماہ اپنی آنکھ کا معائنہ کروانے کے لیے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے۔
خرم کے مطابق اب تک ان کے علاج پر چھ لاکھ روپے سے زائد خرچ ہوچکے ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’علاج بہت مہنگا ہے۔ بینائی اور چوٹوں کی وجہ سے میں نوکری نہیں کر پاتا۔ میرے بہن بھائی اور والد ہی ہیں جو اب تک علاج کروانے میں مدد کر رہے ہیں۔‘
مہنگے علاج کو جاری رکھنے کے لیے عقیل اور خرم جیسے کئی متاثرین فلاحی اداروں اور حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی کا اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہنا تھا کہ اس طرح کے واقعات میں حکومت ایک بار ہی مالی امداد فراہم کرتی ہے۔ اُس دور کی حکومت نے گرجا گھر حملے کے متاثرین کو امداد فراہم کر دی تھی اور ان کا علاج مقامی ہسپتالوں میں شروع کروا دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا: ’یہ تو ناگہانی آفت ہوتی ہے جس سے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ حکومت کو زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے کہ ان لوگوں کو بحالی کی طرف لے کر جائے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی ایسے متاثرین ہیں جن کا علاج جاری ہے اور اس وجہ سے انہیں مالی مشکلات کا سامنا ہے تو وہ اپنے متعلقہ رکن صوبائی اسمبلی اور خود اُن سے بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔ وہ ان کی استدعا کو حکومت تک پہنچانے میں مدد کریں گے۔
تاہم مدد کے منتظر متاثرین کا حکومتی اور فلاحی اداروں کے وعدوں سے اعتبار اٹھ چکا ہے۔
زخمی ہونے والے عقیل عارف کی اہلیہ جین کا کہنا ہے کہ ان کے لیے ان کے شوہر کی صحت یابی ہی سب سے اہم ہے۔
انہوں نے کہا: ’میری ترجیح میرے شوہر ہیں۔ میں انہیں اپنے پیروں پر کھڑا دیکھنا چاہتی ہوں۔ میرے لیے اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔‘
جین نے مزید کہا: ’مجھے اب بھی امید ہے کہ اگر انہیں بیرون ملک علاج کے لیے لے جایا جائے تو ان کے جسم کا بایاں حصہ کام کرنا شروع ہوجائے اور وہ خودمختار ہوکر زندگی گزار سکیں گے۔‘