امریکہ نے جمعرات کو کہا ہے کہ وہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے سمیت پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔
واشنگٹن میں جمعرات کو معمول کی نیوز بریفنگ کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو مبینہ طور پر معاونت فراہم کرنے والی کمپنیوں پر امریکی پابندی اور ساتھ ہی اسلام آباد کے لیے اقتصادی مدد کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’سب سے پہلے بیلسٹک میزائل پروگرام کے معاملے پر ہم نے گذشتہ ماہ لیے جانے والے اقدام (چار کمپنیوں پر پابندی) سے اپنی پوزیشن بالکل واضح کر دی ہے تاہم ہم اقتصادی شعبے میں معیشت کو مستحکم کرنے کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’جب بات آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے سمیت پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کی کوششوں کی ہو، تو ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم اس پیش رفت کی حمایت کرتے ہیں جو پاکستان نے اپنی معیشت کو مستحکم کرنے اور قرضوں کے بوجھ کو کم کے لیے کی ہے۔‘
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا: ’ہم پاکستانی حکومت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اپنے معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اقتصادی اصلاحات کو ترجیح اور وسعت دے۔
’پاکستان کی اقتصادی کامیابی کے لیے ہماری حمایت غیر متزلزل ہے اور ہم تکنیکی روابط کے ساتھ پاکستان سے اپنی تجارت اور سرمایہ کاری میں تعاون جاری رکھیں گے اور یہ ہمارے دوطرفہ تعلقات کی ترجیحات میں شامل ہیں۔‘
امریکہ نے گذشتہ ماہ 19 اپریل کو پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں معاونت کے الزام میں چار بین الاقوامی کمپنیوں پر پابندی لگا دی تھی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ان پابندیوں کا شکار بننے والی کمپنیوں میں سے تین کا تعلق چین اور ایک کا بیلاروس سے ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیان میں کہا گیا تھا کہ: ’امریکہ (بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں) کے عدم پھیلاؤ کی سرگرمیوں کی حمایت کرنے والے پروکیورمنٹ نیٹ ورکس کو روک کر عالمی عدم پھیلاؤ کے نظام کو مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہے جس کے تحت آج ایگزیکٹو آرڈر نمبر 13382 کے مطابق بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل کے ذمہ دار چار اداروں کو نامزد کر رہے ہیں۔‘
بیان میں کہا گیا کہ ان اداروں میں سے تین کا تعلق عوامی جمہوریہ چین میں اور ایک بیلاروس سے ہے، جنہوں نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرامز بشمول اس کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل پروگرام کے لیے آلات فراہم کیے۔
تاہم پاکستان نے اپنے ردعمل میں ’برآمدات پر کنٹرول کے سیاسی استعمال‘ کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پابندیاں بغیر کسی ثبوت کے لگائی گئیں۔
دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’کوئی ثبوت دیے بغیر ماضی میں بھی پاکستان کے میزائل پروگرام سے روابط کے الزامات کے تحت کمپنیوں کی ایسی ہی نشاندہی کی گئی۔‘
مزید کہا گیا کہ ’ماضی میں ہم نے ایسی بہت سی مثالیں دیکھی ہیں، جب صرف شک کی بنیاد پر (کمپنیوں کی) فہرست بنائی گئی یا یہاں تک کہ جب بیان کردہ سامان کسی کنٹرول لسٹ میں نہیں تھا لیکن اسے وسیع تر دفعات کے تحت حساس سمجھا گیا۔
اپنے بیان میں پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا: ’ہم نے کئی بار نشاندہی کی ہے کہ ایسی اشیا کو قانونی طور پر سول تجارتی مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے، اس لیے برآمدی کنٹرول کے من مانے اطلاق سے بچنا ضروری ہے۔
’سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے ٹیکنالوجی تک رسائی یقینی بنانے کی خاطر معروضی نظام کے لیے متعلقہ فریقوں کے درمیان تبادلہ خیال کی ضرورت ہے۔‘