طالبان حکومت کے حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان کے شمالی صوبے بغلان میں گذشتہ جمعے کے سیلاب سے ہونے والی اموات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
اس صوبے کے پناہ گزینوں کے امور کے سربراہ محمد ابراہیم عمری سب سے زیادہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں برکہ اور وسطی بغلان گئے اور کہا کہ کم از کم 315 افراد کی اموات، 1630 زخمی اور 2600 سے زائد مکان تباہ ہوئے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جانی و مالی نقصانات کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔
’سیلاب سے 315 افراد جان کھو بیٹھے جبکہ 1630 زخمی ہوئے، 2,665 مکانات مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئے اور مرکزی بغلان ضلع کے شیخ جلال اور شلیسہ مینا اور برکہ اضلاع کے شارشر گاؤں میں 1000 جانور ضائع ہوئے۔‘
ادھر اقوام متحدہ کے مطابق شمالی افغانستان میں موسمی بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب سے کم از کم 200 افراد جان سے گئے اور سینکڑوں زخمی ہیں۔
اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے مطابق سیلاب سے افغانستان کے صوبے بغلان میں مکانات اور املاک کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
اے ایف پی نے افغانستان کے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ صرف بغلان کے ضلع جدید میں تقریباً 1500 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے یا مکمل تباہ ہو چکے ہیں اور 100 سے زائد افراد جان سے گئے۔
طالبان کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بھی ہفتے کو اس بات کی تصدیق کی ہے کہ سیلاب میں ’سینکڑوں‘ افراد جان سے گئے۔ تاہم انہوں نے صحیح تعداد نہیں بتائی۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ’افسوس ناک ہے کہ ہمارے سینکڑوں شہری اس تباہ کن سیلاب میں جان سے گئے، جب کہ کافی تعداد میں زخمی ہوئے ہیں۔ جبکہ سیلاب نے رہائشی املاک کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا، جس کے نتیجے میں کافی مالی نقصان ہوا ہے۔‘
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ بدخشاں، بغلان، غور اور ہرات صوبے سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
بعد ازاں طالبان کی وزارت داخلہ نے بتایا کہ شمالی افغانستان کے تین صوبوں میں تباہ کن سیلاب سے اموات کی تعداد 153 تک پہنچ گئی ہے۔
قبل ازیں آنے والی اطلاعات میں اموات کی تعداد 50 کے قریب بتائی گئی تھی۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے طالبان کی وزارت مملکت کے ترجمان عبداللہ جانان سائق نے کہا کہ امدادی ٹیمیں کابل سمیت پانچ سے زائد اضلاع میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں خوراک اور دیگر امداد پہنچانے میں مدد کر رہی ہیں۔
طالبان کے بقول ’اموات کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ بہت سے افراد لاپتہ ہیں۔‘
ترجمان نے مزید کہا کہ ’ امدادی کارروائیوں میں تمام دستیاب وسائل، مرنے والوں کو نکالنے اور زخمیوں کے علاج کے لیے فوری طور پر بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ ہم اپنے ہم وطنوں پر بھی زور دیتے ہیں کہ وہ جتنی ہو سکے اس قدرتی آفت کے متاثرین کی مدد کریں۔‘
طالبان کا کہنا ہے کہ شدید موسمی بارشوں کی وجہ سے اچانک آنے والے سیلاب کے لیے لوگ تیار نہیں تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طالبان کی وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانئی نے کہا کہ ’وزارت داخلہ نے اس علاقے میں ٹیمیں اور ہیلی کاپٹر بھیجے ہیں، لیکن ہیلی کاپٹروں میں نائٹ ویژن لائٹس نہ ہونے کی وجہ سے یہ آپریشن شاید کامیاب نہ ہو سکے۔‘
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے افغانستان دفتر نے جمعے کی رات دیر گئے ایک بیان میں کہا کہ ’اس کا گہرا اثر پڑا ہے، جس کے نتیجے میں جانی نقصان اور زخمی ہوئے ہیں، بہت سے افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔‘
عبداللہ جانان سائق نے کہا کہ گذشتہ ماہ شدید بارشوں کے بعد آنے والے تباہ کن سیلاب میں کم از کم 70 افراد اور 2500 سے زائد جانور مارے گئے تھے جبکہ زرعی زمین کو بھی نقصان پہنچا تھا۔
اقوام متحدہ نے گذشتہ سال خبردار کیا تھا کہ افغانستان کو شدید موسمی حالات میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا سامنا ہے۔
ماہرین کے مطابق عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں افغانستان کا حصہ صرف 0.06 فیصد ہونے کے باوجود افغانستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں چھٹے نمبر پر ہے۔
اس خبر میں نیوز ایجنسیوں کی اضافی رپورٹنگ شامل ہے۔
© The Independent