جو آزادیِ اظہار یہاں ہے امریکہ برطانیہ میں بھی نہیں: جسٹس عامر

اڈیالہ جیل میں سماعت کے دوران عمران خان کی میڈیا نمائندگان سے گفتگو میں آرمی چیف اور ادارے کے خلاف الزامات پر احتساب عدالت نے اڈیالہ جیل میں سماعت کے دوران سیاسی یا کسی ادارے و شخصیت کے حوالے سے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے بیانات پر پابندی عائد کی تھی۔ 

اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت کا بیرونی منظر (انڈپینڈنٹ اردو)

اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کی اڈیالہ جیل عدالت میں سیاسی بیانات اور میڈیا کے رپورٹ کرنے پر پابندی کیس میں چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ’جو آزادیِ اظہار یہاں ہے وہ امریکہ اور برطانیہ میں بھی نہیں ہے، برطانیہ امریکہ والے بھی یہ فری سپیچ نہیں کرتے۔‘

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’میڈیا جیل عدالت کارروائی کی فیئر رپورٹنگ کرے جو سن رہے ہیں وہ ریورٹ کریں، شفاف طریقے سے میڈیا عدالت کی کارروائی کو رپورٹ کر سکتا ہے۔‘ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پی ٹی آئی  کی عدالت میں سیاسی گفتگو پر پابندی کے خلاف درخواست پر نیب کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کر لیا۔

اڈیالہ جیل میں سماعت کے دوران عمران خان کی میڈیا نمائندگان سے گفتگو میں آرمی چیف اور ادارے کے خلاف الزامات پر احتساب عدالت نے اڈیالہ جیل میں سماعت کے دوران سیاسی یا کسی ادارے و شخصیت کے حوالے سے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے بیانات پر پابندی عائد کی تھی۔ 

عمران خان کی درخواست

عمران خان نے احتساب عدالت کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا اور اُن کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے درخواست دائر کردی۔ درخواست  میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ’احتساب عدالت نے فیصلے میں کہا کہ میڈیا وکلا اور گواہان کے بیانات رپورٹ نہ کرے جب کہ اوپن کورٹ میں موجود صحافیوں کے حقوق پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی اور صحافیوں کو ٹرائل کے دوران وکلا، گواہان یا ملزمان کے بیانات نشر کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔‘

سماعت میں مزید کیا ہوا؟

عمران خان کی احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت پیر کے روز چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کی۔ عمران خان کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ 

وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’عدالت نے بار بار آرڈر کیا ہے کہ جیل ٹرائل اوپن ٹرائل ہے، جیل عدالت میں جیل حکام نے مختلف قسم کی رکاوٹیں کھڑی کر دیں، پھر عدالت کے حکم کے بعد وہ رکاوٹیں ہٹا دیں گئیں، میڈیا کو رپورٹ کرنے کے حوالے سے عدالت کی پابندیاں لگا دیں۔‘

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا جو وکیل پیش ہو رہا ہے کیس کے میرٹس پر بات کر سکتا ہے؟ کیا وکیل کہہ سکتا ہے جیت جائیں گے ہار جائیں گے؟ جو وکیل عدالت میں پیش ہو رہا ہے کیا شام کو ٹی وی پر بیٹھ کر میرٹس پر بات کر سکتا ہے؟‘

اس پر وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ ’میں عدالت سے متفق ہوں وکیل کیس کے میرٹس پر میڈیا پر بات نہیں کر سکتا، بار کونسل رولز میں بھی لکھا ہوا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کیس سے متعلق دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’اٹارنی جنرل نے عدالت کے سامنے واضح کیا کہ جیل ٹرائل اوپن ٹرائل ہے، ٹرائل ختم ہونے میں تھوڑا وقت رہ گیا ہے۔‘ چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’راجہ صاحب آپ پوری دنیا پھرے ہوئے ہیں جو آزادیِ اظہار یہاں ہے وہ امریکہ اور برطانیہ میں بھی نہیں ہے، برطانیہ امریکہ والے بھی یہ فری سپیچ نہیں کرتے۔‘

عدالت نے نیب اور جیل سپرانٹینڈنٹ کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔

عمران خان کے بولنے پر پہلے پابندی کب لگی؟

گزشتہ برس بھی پیمرا نے لائسنس دہندگان کو ہدایت کی تھی کہ ’ریاستی اداروں کے خلاف کوئی بھی مواد ٹیلی کاسٹ کرنے سے گریز کریں کیونکہ عمران اپنی تقاریر اور بیانات میں ریاستی اداروں اور افسران کے خلاف اشتعال انگیز بیانات کے ذریعے بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں اور نفرت انگیزی پھیلا رہے ہیں جو امن و امان کی بحالی کے لیے نقصان دہ ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان