خیبر پختونخوا کے مالاکنڈ ڈویژن کے نو اضلاع میں مختلف اقسام کے ٹیکسوں کے ممکنہ نفاذ کے خلاف تاجر تنظیموں کی جانب سے منگل کو مالاکنڈ ڈویژن میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔
ہڑتال کے دوران تمام کاروباری مراکز بند رہے جبکہ تاجر تنظیموں کی جانب سے ٹیکسوں کا ممکنہ فیصلہ یکسر مسترد کر دیا۔
مالاکنڈ ڈویژن کے اضلاع بشمول لوئر دیر، اپر دیر، سوات، اور دیگر اضلاع میں بازار بند رہے جبکہ بازاروں میں ٹریفک بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔
پرائیویٹ سکول یونین نے تاجروں کی کال سے اظہار یکجہتی کے طور پر نجی تعلیمی ادارے بھی بند رکھے۔
تاجر تنظیموں کی جانب سے ریلیاں بھی نکالی گئیں جس میں مختلف سیاسی و سماجی شخصیات بھی شریک تھیں۔
لوئر دیر کے ضلعی ہیڈ کوارٹر تیمرگرہ میں شٹر ڈاؤن ہڑتال رہی۔ لوئر دیر انجمن تاجران کے انوارالدین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حکومت کی مجوزہ ٹیکس نفاذ کو ہم ہر گز قبول نہیں کریں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ مالاکنڈ ڈویژن ایک پسماندہ علاقہ ہے اور یہاں ہر سہولیات نہ ہونے کے برابر ہے لیکن حکومت یہاں کی عوام سے ٹیکس اصولی کا سوچ رہے ہیں۔
انوارالدین نے بتایا، ’پہلے اس علاقے کو ترقی دیں، یہاں تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع پیدا کریں اور تب ہی ایسے فیصلوں کو سوچا کریں۔‘
انوارالدین کے مطابق مالاکنڈ ڈویژن کو ایک معاہدے کے تحت 100 سال ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے لیکن حکومت اس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہی ہے جو ہمیں قبول نہیں ہے۔
کس قسم کے ٹیکسوں کا نفاذ متوقع ہے؟
مالاکنڈ ڈویژن ماضی میں نیم قبائلی ضلع تھا جس میں سوات، چترال، اور دیر شاہی ریاستیں ہوا کرتی تھیں لیکن تقسیم ہند کے بعد ان ریاستوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کردیا۔
یہ علاقے دیگر سابق قبائلی علاقوں سے مختلف تھے کیونکہ سابق قبائلی علاقے وفاق کے زیر انتظام تھے جبکہ مالاکنڈ ڈویژن صوبائی اسمبلی کے زیر انتظام تھا اور اب بھی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس علاقے کو قبائلی سٹیٹس کی وجہ سے مختلف ٹیکسوں سے مستثنی قرار دے دیا گیا تھا جہاں پر بغیر کسٹم کے گاڑیاں (جس کو نان کسٹم پیڈ یا کابلی گاڑی کہتے ہیں)، جائداد کا ٹیکس، کارخانوں پر ٹیکس اور انکم ٹیکس سمیت دیگر ٹیکسز کا نفاذ ابھی تک نہیں ہوا ہے۔
پچیسویں آئینی ترمیم کے بعد 2018 میں قبائلی اضلاع سمیت مالاکنڈ کے نیم قبائلی اضلاع کا سٹیس بھی ختم کردیا گیا لیکن اس وقت مالاکنڈ ڈویژن کو پانچ سال یعنی جون 2023 تک ٹیکس سے مستثنی قرار دیا گیا تھا۔
گذشتہ سال وفاقی حکومت نے مالاکنڈ کو ٹیکس کی چھوٹ دینے میں مزید ایک سال کی توسیع دی تھی، اور اب جون میں یہ ختم ہورہی ہے۔
تاہم ابھی تک وفاقی حکومت کی جانب سے مالاکنڈ ڈویژن میں ٹیکس قوانین کے نفاذ کی حوالے سے باقاعدہ طور پر کوئی اعلامیہ جاری تو نہیں کیا گیا ہے لیکن تاجر تنظیمیں سمجھتی ہیں کہ حکومت نے ٹیکس قوانین نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
محکمہ ایکسائز سمیت ٹیکس کے محکموں نے مالاکنڈ ڈویژن میں اپنے دفاتر کھولنے کا آغاز بھی کیا ہے جبکہ بعض ٹیکس محکموں کے دفاتر پہلے سے موجود ہیں۔
مالاکنڈ ڈویژن میں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں بھی چلتی ہیں جس کو ریگولرائز کرنے کے لیے حکومت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر طریقہ کار وضع کرنا شروع کیا ہے۔
قانون نافذ کرنے والوں کا موقف ہے کہ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں دہشت گردی کے واقعات میں استعمال ہوتی ہیں۔
اسی حوالے سے گذشتہ ماہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں کور کمانڈر پشاور بھی موجود تھے۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے مستقبل کے حوالے سے وفاقی حکومت سے بات کریں گے تاکہ اس کے بارے میں کوئی فیصلہ لیا جا سکے۔
اس حوالے سے جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کی قیادت نے بتایا کہ وہ ٹیکسز کے خلاف نہیں ہیں لیکن حکومت پہلے سے مالاکنڈ ڈویژن کی عوام سے مختلف مد میں ٹیکس اکھٹا کر رہے ہیں تو مزید ٹیکس عائد کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
جماعت اسلامی قبائلی اضلاع کے امیر شاہ فیصل آفریدی نے بتایا، ’پیٹرول، بجلی سمیت مختلف مد میں حکومت ٹیکس وصول کر رہی ہے تو مزید ٹیکس لگانا قابل قبول نہیں ہے۔‘
مالاکنڈ ڈویژن میں وفاقی ٹیکس جمع کرنے والے ادارے فیڈرل بورڈ اف ریوینیو کی جانب سے 30 جون 2024 تک اس علاقے کو ٹیکس سے چھوٹ دے دی گئی ہے۔
تاہم خیبر پختونخوا ریوینیو اتھارٹی کی جانب سے گذشتہ سال یکم نومبر سے مالاکنڈ ڈویژن میں مختلف سروسز پر ٹیکس اکھٹا کیا جا رہا ہے۔
خیبر پختونخوا ریونیو اتھارٹی کے ترجمان سہیل خٹک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ سال اکتوبر تک مالاکنڈ ڈویژن صوبائی ٹیکس سے مستثنی تھا، تاہم اب وہاں ہم ٹیکس وصول کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا، ’ہوٹلز، ریسٹورنٹس، شادی ہالز، سمیت ٹرانسپورٹ، کارخانوں میں سروسز مہیا کرنے والوں سے ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔‘
وفاقی ٹیکس جمع کرنے کے حوالے سے ایف بی آر کے ترجمان اشفاق قریشی سے رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے اس حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا۔