ناروے، سپین اور آئرلینڈ کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان

آئرلینڈ کے رہنما نے کہا کہ ان کا ملک فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرے گا لیکن انہوں نے تاریخ کی وضاحت نہیں کی جبکہ ناروے اور سپین کے رہنماؤں نے کہا کہ ان کے ممالک 28 مئی تک فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کریں گے۔

ناروے، آئرلینڈ اور سپین نے بدھ کو اعلان کیا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیں گے، جس کے بعد اسرائیل نے فوری طور پر ان ممالک سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق آئرلینڈ کے رہنما نے کہا کہ ان کا ملک فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرے گا لیکن انہوں نے تاریخ کی وضاحت نہیں کی جبکہ ناروے اور سپین کے رہنماؤں نے کہا کہ ان کے ممالک 28 مئی تک فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کریں گے۔

ناروے کے وزیر اعظم جونس گہر سٹور نے اوسلو میں، سپین کے وزیراعظم پیڈرو سانچیز نے میڈرڈ میں اور آئرش وزیر اعظم سائمن ہیرس نے ڈبلن میں یہ اعلان کیا۔

ناروے، جس نے 1990 کی دہائی کے اوائل میں اسرائیل فلسطین امن مذاکرات کی میزبانی کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ کی سفارت کاری میں اہم کردار ادا کیا تھا، کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے دوران اعتدال پسند آوازوں کی حمایت کے لیے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔

جونس گہر سٹور نے کہا کہ ’ (غزہ پر) جارحیت کے دوران، جس میں ہزاروں افراد کی موت اور زخمی ہو چکے ہیں، ہمیں واحد متبادل کو زندہ رکھنا ہوگا جو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے یکساں طور پر ایک سیاسی حل پیش کرتا ہے، یعنی دو ریاستیں، جو امن اور سلامتی کے ساتھ شانہ بشانہ رہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’فلسطین کو تسلیم کرنا اس طویل اور وحشیانہ تنازع میں اعتدال پسند قوتوں کی حمایت کرنا ہے۔ اس سے بالآخر دو ریاستی حل کے حصول کے عمل کو دوبارہ شروع کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔‘

سپین کے وزیراعظم پیڈرو سانچیز نے میڈرڈ میں پارلیمنٹ میں کہا: ’اگلے منگل، 28 مئی کو سپین کی کابینہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی منظوری دے گی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ان کے اسرائیلی ہم منصب بن یامین نتن یاہو غزہ کی پٹی میں ’تکلیف اور تباہی‘ کی اپنی پالیسی کے ذریعے دو ریاستی حل کو ’خطرے‘ میں ڈال رہے ہیں۔

آئرلینڈ کے وزیراعظم سائمن ہیرس نے اس حوالے سے اعلان کرتے ہوئے اسے ’آئرلینڈ اور فلسطین کے لیے تاریخی اور اہم دن قرار دیا۔‘

فلسطینی اتھارٹی کے مطابق ناروے، آئرلینڈ اور سپین کے اعلان سے قبل اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 142 نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کر رکھا ہے۔

اسرائیل نے سفیر واپس بلوا لیے

دوسری جانب اسرائیل نے فوری طور پر اعلان کیا کہ وہ ’فوری مشاورت‘ کے لیے آئرلینڈ اور ناروے سے اپنے سفیروں کو واپس بلا رہا ہے۔

اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے ایک بیان میں کہا کہ ’آج میں آئرلینڈ اور ناروے کو ایک سخت پیغام دے رہا ہوں کہ اسرائیل اس پر خاموشی نہیں بیٹھے گا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ وہ اپنے ہسپانوی سفیر کے ساتھ بھی ایسا ہی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اس سے قبل اسرائیلی وزارت خارجہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر آئرلینڈ کے نام ایک ویڈیو پیغام پوسٹ کیا تھا، جس میں متنبہ کیا گیا تھا کہ  ’فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے سے خطرہ ہے کہ آپ ایران اور حماس کے ہاتھوں میں مہرہ بن جائیں گے۔‘

مزید کہا گیا کہ اس اقدام سے ’صرف انتہا پسندی اور عدم استحکام کو ہوا ملے گی۔‘

اسرائیل نے کہا ہے کہ فلسطین کو تسلیم کرنے کا منصوبہ ’دہشت گردی کے لیے انعام‘ ہے، جس سے غزہ میں جارحیت کے مذاکرات کے ذریعے حل کے امکانات کم ہو جائیں گے، جو سات اکتوبر کو حماس کے عسکریت پسندوں کے جنوبی اسرائیل میں داخل ہونے کے بعد شروع ہوئی تھی۔

کئی دہائیوں سے فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کو فلسطینیوں اور ان کے اسرائیلی ہمسایوں کے درمیان امن عمل کے اختتام کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔

امریکہ اور زیادہ تر مغربی یورپی ممالک نے کہا ہے کہ وہ ایک دن فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے خواہاں ہیں، لیکن حتمی سرحدوں اور مقبوضہ بیت المقدس کی حیثیت جیسے پیچیدہ معاملات پر سمجھوتے تک پہنچنے سے پہلے نہیں۔

لیکن حماس کے سات اکتوبر کے اسرائیل پر حملے اور غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے بعد، سفارت کار ان متنازع خیالات پر دوبارہ غور کر رہے ہیں جو کبھی متنازع تھے۔

سویڈن، جہاں فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد آبادی ہے، 2014 میں مغربی یورپ میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والا یورپی یونین کا پہلا رکن بن گیا تھا۔

اس سے قبل اسے چھ دیگر یورپی ممالک بلغاریہ، قبرص، چیک جمہوریہ، ہنگری، پولینڈ اور رومانیہ نے تسلیم کیا تھا۔

اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار کی بنیاد پر اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق حماس کے اسرائیل پر سات اکتوبر 2023 کے حملے کے نتیجے میں 1،170 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

حماس نے بھی 252 افراد کو یرغمال بنایا، جن میں سے 124 غزہ میں موجود ہیں اور جن میں سے 37 کے بارے میں فوج کا کہنا ہے کہ وہ جان سے جا چکے ہیں۔

حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی جوابی کارروائی میں غزہ میں 35 ہزار سے زائد افراد جان سے گئے، جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا