عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ایک ارب 30 کروڑ لوگ سگریٹ نوشی کرتے ہیں، جن میں سے 80 فیصد کا تعلق غریب اور متوسط طبقے سے ہے۔ دنیا بھر میں سالانہ 70 لاکھ لوگوں کی اموات کا سبب وہ بیماریاں بنتی ہیں جن کی ایک وجہ سگریٹ نوشی بھی ہے۔
گرانڈ ویو ریسرچ کے مطابق تمباکو کی عالمی صنعت کا حجم 867.6 ارب ڈالر ہے جو اس دہائی کے اختتام تک ایک کھرب ڈالر سے بڑھ جائے گا۔ پاکستان میں تمباکو کی صنعت کا مجموعی حجم تقریباً ایک ہزار ارب روپے کا ہے۔
پاکستان میں ہر سال نئے بجٹ کی آمد سے پہلے دو لابیاں بہت زیادہ متحرک ہو جاتی ہیں۔ ایک کا مؤقف ہوتا ہے کہ سگریٹ پر ٹیکس بڑھائیں تاکہ سگریٹ مہنگے ہوں اور سگریٹ نوشی کی حوصلہ شکنی ہو، جبکہ دوسری لابی کہتی ہے کہ سگریٹ پر ٹیکس بڑھانے سے مارکیٹ میں غیر قانونی سگریٹ کی ترسیل بڑھ جاتی ہے جس سے سگریٹ نوشی میں کمی تو نہیں ہوتی البتہ غیر معیاری سگریٹ مارکیٹ میں آتے ہیں جس سے لوگوں کی صحت مزید خراب ہوتی ہے اور اس کے ساتھ حکومت کو ٹیکسوں کی وصولی کی مد میں اربوں روپے کا نقصان بھی ہوتا ہے۔
پاکستان میں غیر قانونی سگریٹ کی تجارت کتنی ہے؟
نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی نے گذشتہ ہفتے ایک رپورٹ جاری کی، جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں سگریٹ کی غیر قانونی فروخت کا حجم سگریٹ کی کل فروخت کا 63.5 فیصد تک پہنچ چکا ہے اور اب وہ برانڈز جو سگریٹ کی قانونی فروخت کرتے ہیں ان کا حجم سکڑ کر36.5 فیصد رہ گیا ہے۔
اس طرح صرف سگریٹ کی غیر قانونی فروخت سے سرکاری خزانے کو سالانہ 310 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
آج سے صرف تین سال پہلے جب سگریٹ پر ٹیکسوں کی شرح کم تھی تو 2021 میں مارکیٹ میں غیر قانونی سگریٹ کی فروخت کا حجم 36.8 فیصد تھا جبکہ آج یہ حجم قانونی سگریٹ کی فروخت کا رہ گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر یہی روش رہی تو اس مالی سال کے اختتام تک قانونی سگریٹ کی فروخت کا حجم مزید کم ہو کر 29.6 فیصد رہ جائے گا۔
پاکستان میں غیر قانونی سگریٹ تین طرح کے ہیں۔ ایک وہ مقامی برانڈز ہیں جو ٹیکس دیتے ہی نہیں ہیں، دوسرے سمگل شدہ برانڈز ہیں اور تیسرے جعلی برانڈز ہیں۔ ان تینوں میں سب سے زیادہ شیئر مقامی طور پر تیار ہونے والے ان برانڈز کا ہے جو ٹیکس نہیں دیتے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں مقامی سگریٹ کمپنیاں جو ٹیکس کم دیتی ہیں یا نہیں دیتیں ان کا مارکیٹ شیئر 52.3 فیصد ہے اور یہ صرف سالانہ دو ارب روپے ٹیکس دیتی ہیں جبکہ دوسری جانب دو ملٹی نیشنل کمپنیاں جن کا مارکیٹ میں شیئر کم ہو کر 17.6 فیصد رہ گیا ہے وہ سالانہ 170 ارب روپے ٹیکس دیتی ہیں۔
فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005 کے تحت کسی بھی سگریٹ کی ڈبی کی قیمت 127.44 روپے سے کم نہیں رکھی جا سکتی جس پر 119.4 روپے کی ڈیوٹی لاگو ہو گی۔ Ipsos Pakistan کے مطابق مارکیٹ میں اس وقت 104 برانڈز ایسے فروخت ہو رہے ہیں جن کی قیمت اس ایکٹ میں مقرر کی گئی قیمت سے کم ہے۔
مارکیٹ میں موجود صرف 32 برانڈز پر ٹریک اینڈ ٹریس کے سٹکرز لگے ہوئے ہیں جبکہ 165 برانڈز پر ایسے سٹکرز سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔
سگریٹ کی سیاست اب ایوانوں تک پہنچ چکی ہے
پاکستان کے وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے گذشتہ ہفتے نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کی اس رپورٹ کی تقریب اجرا کے موقعے پر خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں غیر قانونی سگریٹ فروش اتنے طاقتور ہیں کہ ان کے نمائندے اب اسمبلیوں میں پہنچ چکے ہیں، جو اپنے کاروباری مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے عوامی عہدے استعمال کرتے ہیں۔
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے ایکٹ الائنس کے نیشنل کنوینئر مبشر اکرم سے رابطہ کیا۔ ایکٹ الائنس 2016 سے سرگرم سول سوسائٹی کے ان اداروں کا نمائندہ پلیٹ فارم ہے جو پاکستان میں غیر قانونی تجارت، ٹیکس چوری، سمگلنگ اور جعلی مصنوعات کے خلاف کام کر رہے ہیں۔
مبشر اکرم کہتے ہیں کہ ’اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پاکستانی اشرافیہ کے نمائندے ایوانوں میں پہنچ کر اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں، چاہے ان کے اس عمل سے ملک کو نقصان ہی کیوں نہ پہنچے۔
’سگریٹ انڈسٹری کے مالکان بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ پاکستان میں تمباکو کی پیداوار کے لیے خیبر پختونخوا مشہور ہے، اس لیے وہاں سگریٹ کے کاروبار سے وابستہ کئی خاندان حالیہ سالوں میں ایوانوں تک پہنچے ہیں ان میں سرفہرست ترکئی فیملی ہے۔‘
لیاقت خان ترکئی 2015 سے 2021 تک سینیٹر رہے ہیں۔ ان کے بھائی محمد علی ترکئی 2013 سے 2023 تک خیبر پختوخوا اسمبلی کے رکن رہے ہیں۔ لیاقت علی خان ترکئی کے ایک اور کزن عثمان خان ترکئی بھی قومی اسمبلی کے رکن رہے ہیں۔ لیاقت خان ترکئی کے بیٹے شہرام خان ترکئی جو اس وقت تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ہیں، وہ پچھلے ادوار میں خیبر پختونخوا اسمبلی کے رکن رہے ہیں اور زراعت اور صحت کے صوبائی وزیر بھی رہے ہیں۔
ان کے بھائی فیصل خان ترکئی موجودہ صوبائی وزیر تعلیم ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق ایم این اے حاجی نسیم الرحمٰن کا تعلق بھی تمباکو کی صنعت سے ہے۔ اعجاز اکرم باچا جن کا تعلق صوابی سے ہے، وہ بھی تمباکو کی صنعت سے وابستہ ہیں اور عبوری حکومت میں وزیراعلیٰ خیبر پخونخوا کے معاون خصوصی رہے ہیں۔
سگریٹ انڈسٹری سے وابستہ ایک اور بڑا نام سینیٹر دلاور خان کا بھی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مبشر اکرم نے کہا کہ ’چونکہ خیبر پختونخوا میں تمباکو پیدا ہوتا ہے اور وہاں سگریٹ انڈسٹری بھی ہے جو ٹیکس نہیں دیتی یا بہت کم دیتی ہے اس لیے سیاسی طور پر سرگرم خاندانوں کے پاس وہ تمام وسائل موجود ہوتے ہیں جو پاکستان میں سیاست کے لیے ناگزیر سمجھے جاتے ہیں اور جب وہ ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں تو پھر وہ اپنے کاروباروں کے لیے بھرپور لابنگ بھی کرتے ہیں۔‘
ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبر زیدی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے دور میں مردان میں ان بھٹیوں کو رجسٹرڈ کرنا چاہتے تھے جو تمباکو کو سگریٹ بنانے سے پہلے پراسیس کرتی ہیں تاکہ یہ اندازہ کیا جا سکے کہ کتنا تمباکو تیار ہوتا ہے اور اس سے کتنے سگریٹ بنتے ہیں، مگر سیاست دانوں نے یہ کام ہونے نہیں دیا۔
انہوں نے کہا کہ مردان میں سگریٹ بنانے کی چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں گھروں میں لگی ہوئی ہیں جو جعلی یا اپنے برانڈز بناتی ہیں اور کہیں رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ انہیں ہم ’مردان والا‘ کے نام سے پکارتے ہیں جو کسی قسم کا ٹیکس نہیں دیتیں۔
تمباکو کے خلاف کام کرنے والی لابیوں کا کیا کہنا ہے؟
سوشل پالیسی اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹر پاکستان کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں تین کروڑ 16 لاکھ لوگ، جن کی عمریں 15 سال سے زیادہ ہیں وہ سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔ سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اگر 37 فیصد مزید اضافہ کیا جائے تو سگریٹ کی قیمتیں بڑھنے سے 757,000 لوگ سگریٹ نوشی ترک کر دیں گے جس سے سگریٹ پر ٹیکسوں کی وصولی میں 12.1 فیصد اضافہ ہو گا اور سگریٹ سے ہونے والی بیماریوں کے علاج پر ہونے والے اخراجات میں 17.8 فیصد کمی ہو گی۔ ایف ای ڈی اور جی ایس ٹی کی مد میں حکومت کو 88 ارب روپے کی اضافی آمدن ہو گی۔
جبکہ نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تمباکو کی صنعت سے ٹیکسوں کی مد میں 551 ارب روپے وصول ہو سکتے ہیں جبکہ اس مالی سال کے اختتام تک اس مد میں وصول ہونے والے ٹیکسوں کی متوقع آمدن 242 ارب روپے ہے، کیونکہ مارکیٹ میں غیر قانونی سگریٹ کی تجارت سے سرکاری خزانے کو سالانہ 310 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
شارق ایم خان جو کرومیٹک پاکستان کے سی ای او ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سگریٹ پر اگر پورے ٹیکس وصول ہو بھی جائیں تب بھی یہ اس نقصان سے کہیں زیادہ ہیں جو پاکستان کو سگریٹ نوشی سے ہونے والی بیماریوں سے ہو رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کو سگریٹ نوشی سے ہونے والی بیماریوں کے علاج پر سالانہ 615 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے اور سالانہ 167000 لوگ سگریٹ نوشی سے ہونے والی بیماریوں کے نتیجے میں مر جاتے ہیں۔