میں بھیک مانگنے والوں کو پیسے نہیں دیتی۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو ان میں زیادہ تر تعداد پیشہ ور مانگنے والوں کی ہوتی ہے، جن کا کام ہی بھیک مانگنا ہوتا ہے۔
جس طرح ہم روز اپنے گھروں سے کام کے لیے نکلتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی روزانہ اپنی جھونپڑیوں، جھگیوں یا گھروں سے بھیک مانگنے کے لیے نکلتے ہیں۔
اس تحریر کو کالم نگار کی آواز میں یہاں سنا جا سکتا ہے:
ان میں سے ہر بھکاری ایک مخصوص جگہ پر بھیک مانگتا ہے۔ اس جگہ سے روزانہ گزرنے والے انہیں اچھی طرح جانتے اور پہچانتے ہیں۔
انہیں دو تین بار دیکھنے کے بعد ہم چوتھی دفعہ دیکھ کر بھی اَن دیکھا کر دیتے ہیں۔ اس خراب معیشت میں کسی بھی انسان کی جیب روزانہ کی بنیاد پر کسی دوسرے کی مدد کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔
یہ بھی ڈھیٹ ہوتے ہیں۔ آپ کو دیکھتے ہی آپ کے پاس آ جاتے ہیں اور ایسے دیکھتے ہیں جیسے آپ سے بھیک نہیں بلکہ اپنا حق مانگ رہے ہوں۔
دن کے اختتام پر یہ اپنی اس دن کی ’کمائی‘ کے ساتھ اپنی جھونپڑیوں، جھگیوں یا گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔
کچھ سال پہلے ایک بھکاری کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔ وہ مڑے تڑے نوٹوں سے بھرے شاپروں کے ساتھ ایک بینک میں موجود تھا۔ وہ اپنی اضافی کمائی اپنے بینک اکائونٹ میں جمع کروانے آیا تھا۔
میں بھکاریوں کی اس لیے بھی مدد نہیں کرتی کہ ان کی تعداد حد سے زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اپنے گھر سے کسی بھی جگہ جانے کے لیے نکلیں، رستے میں کم از کم چار سے پانچ بھکاری ضرور ملیں گے۔
ان میں سے ہر بھکاری کو چند روپے بھی دیں تو دن کے اختتام تک جیب سے ایک اچھی خاصی رقم غائب ہو جاتی ہے۔ پھر مجبوراً ان سے منہ موڑنا پڑتا ہے۔ ان کی مدد ہم نہیں تو کوئی اور کر دے گا لیکن ہماری مدد ہمارے علاوہ کوئی اور نہیں کرے گا۔
مجھے کوئی اچھا کہے یا برا، یہ سب اور اپنے بینک اکاؤنٹ کا حال دیکھتے ہوئے میں ان بھکاریوں کو پیسے نہیں دیتی۔
ہاں، اپنے قریبی افراد جنہیں میں جانتی ہوں اور جو مجھے جانتے ہیں، ان کی مدد ضرور کرتی ہوں۔ مجھے بھی پتہ ہوتا ہے کہ ان کی کیا ضرورت ہے اور انہیں بھی پتہ ہوتا ہے کہ میں ان کی کس حد تک مدد کر سکتی ہوں۔ اس طرح میرا ان سے اور ان کا مجھ سےایک اچھا تعلق برقرار رہتا ہے۔
پاکستان میں سب کے حالات ایک سے ہو چکے ہیں۔ مہنگائی سب کو متاثر کر رہی ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ کچھ لوگ مانگ سکتے ہیں اور کچھ مانگ نہیں سکتے۔
لیکن اندر سے ہم سب ایک سے حال میں زندگی گزار رہے ہیں۔
جیسے ان کی مدد کے لیے ہمارے علاوہ کوئی نہیں آتا ویسے ہی ہماری مدد کے لیے بھی کوئی نہیں آتا۔ ہم بھی ہسپتالوں میں بے یارومددگار پڑے رہتے ہیں۔ یہ بھی کبھی ہسپتالوں میں تو کبھی اس کے باہر ایک انجیکشن یا دوائی کے انتظار میں تڑپتے ہوئے اپنی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔
جیسے یہ کسی حادثے کا شکار ہو سکتے ہیں، ویسے ہی ہم بھی کسی حادثے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ جو خطرہ ان کے لیے موجود ہے وہی خطرہ ہمارے لیے بھی موجود ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہم کسی حد تک اپنی مدد کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ ان کے پاس یہ طاقت نہیں ہوتی۔
ایمرجنسی حالات میں انسان کو سکھایا جاتا ہے کہ وہ پہلے اپنی مدد کرے پھر دوسرے کی مدد کرے۔ ہم سالوں سے ایمرجنسی حالات میں ہی جی رہے ہیں۔ ان حالات میں ہم پہلے اپنا آپ دیکھیں گے، پھر دوسرے کو دیکھیں گے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری طرف ایمرجنسی حالات ختم ہی نہیں ہو رہے۔ ہم ہر مہینے اپنی ایک نئی ضرورت کا گلا دباتے ہیں، پھر بھی ہمارا ہر ماہ کا خرچہ پچھلے مہینے سے زیادہ ہو جاتا ہے۔
کبھی کسی چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے تو کبھی کسی چیز کی۔ ہم ایک جگہ سے پیسے بچاتے ہیں تو دوسری جگہ ان سے زیادہ پیسے خرچ ہو جاتے ہیں۔ ہماری ضرورتیں پھر بھی منہ کھولے ہماری طرف دیکھ رہی ہوتی ہیں۔
ان حالات میں ہم اپنی ضرورتوں کو دیکھیں یا ان کے حسرت زدہ منہ دیکھیں۔ ہمیں کہیں نہ کہیں سے تو آنکھیں چرانی پڑتی ہیں۔ کبھی اپنی ضرورت کا گلہ گھونٹ دیتے ہیں تو کبھی انہیں اَن دیکھا کر دیتے ہیں۔
ان کی اور ہماری ذمہ داری حکومت پر ہے۔ وہ ہم سب سے منہ موڑ کر بیٹھی ہے۔ ہم اپنے کام کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کے کام بھی کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ہماری حکومت ہمیں بدلے میں صرف چھٹیاں دے رہی ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ ہمیں اور خود کو چھٹیوں سے نکال کر کام پر لگائے۔ ہمیں مناسب مواقع اور سہولیات فراہم کرے تاکہ ہم سب باعزت زندگی گزار سکیں۔ ہمیں ان کی مدد نہ کر پانے کی شرمندگی سے بچائے اور انہیں ہم سے مانگنے کی شرمندگی سے نجات دلائے۔ ان کے لیے ہنگامی بنیادوں پر مدد کرے۔ انہیں ہنر سکھائے، روزگار فراہم کرے اور کام کرنے کی ترغیب دے تاکہ وہ اپنے ہی ہم وطنوں کے محتاج نہ رہیں۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔