مریدکے: پانچ سالہ بچی ونی، کم عمر شادیوں کو روکا کیسے جائے؟

ضلع شیخوپورہ کی تحصیل مرید کے میں پولیس کے مطابق رواں ہفتے ایک پانچ سالہ بچی کو ونی ہونے سے بچا کر واقعے کا مقدمہ درج کرلیا گیا، جہاں دو خاندانوں میں صلح کی خاطر بچی کی شادی 13 سالہ بچے سے کروائی جا رہی تھی۔

28 جنوری 2018 کی اس تصویر میں کراچی میں اجتماعی شادی کی ایک تقریب میں شریک دلہن (اے ایف پی)

ضلع شیخوپورہ کی تحصیل مرید کے میں پولیس کے مطابق رواں ہفتے ایک پانچ سالہ بچی کو ونی ہونے سے بچا کر واقعے کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔

ونی کی اس رسم میں دو خاندانوں میں صلح کی خاطر پنچایت کے فیصلے پر لڑکیوں کی مخالف خاندان میں شادی کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

تھانہ صدر مریدکے کے انویسٹی گیشن افسر محمد یونس نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس شادی کا پس منظر بتاتے ہوئے بتایا: ’بشیر کوٹ میں عمران نامی شخص نے مزمل نامی شخص کی بیٹی کو کچھ روز قبل اغوا کیا اور اسے کچھ دن اپنے پاس رکھ کر چھوڑ دیا، جس کے بعد علاقے میں پنچایت لگی اور علاقے کے چوہدری نے دونوں خاندانوں میں اس شرط پر صلاح کروائی کہ عمران اپنی پانچ سالہ بیٹی کا نکاح مزمل کے 13 سالہ بیٹے سے کردے گا۔‘

اس کیس کی ایف آئی آر 26 مئی کو تھانہ صدر مریدکے میں دی چائلڈ میریج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 کی دفعہ پانچ اور چھ کے تحت پولیس کی مدعیت میں درج کی گئی۔

ایف آئی آر کے مطابق کسی مخبر نے پولیس کو اطلاع دی کہ علاقے میں ایک ڈیرے پر دو نابالغان کی زبردستی شادی کی جا رہی ہے اور بچوں کی عمریں بالترتیب پانچ اور 13 سال ہیں۔

ایف آئی میں درج ہے کہ ’جب پولیس موقعے پر پہنچی تو ڈیرے پر موجود افراد اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہو گئے جبکہ پولیس نے بچے کے دادا محمد یوسف کو گرفتار کرلیا جنہوں نے دریافت کرنے پر بتایا کہ وہ اپنے بیٹے مزمل کے ساتھ مل کر اپنے نابالغ پوتے کی شادی کروا رہے تھے۔‘

انویسٹی گیشن افسر محمد یونس نے بتایا کہ بچی کے والد اور دیگر افراد کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں جبکہ بچی اپنے گھر پہنچ چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نکاح خواں بھی موقعے سے فرار ہو گیا، جس کی تلاش جاری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’ساحل‘ کی جانب سے انڈپینڈنٹ اردو کو فراہم کی جانے والی ایک رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں ملک بھر سے کم عمری کی شادیوں کے 29 کیس رپورٹ ہوئے، جن میں دو بچوں اور 27 بچیوں کی کم عمری میں شادی کروائی گئی۔ ان بچیوں کی عمریں 10 سال تک تھیں۔

ساحل کی رپورٹ کے مطابق کم عمری کی شادیاں ونی، سوارا اور سنگ چاٹی جیسی رسموں کے نتیجے میں بھی سامنے آتی ہیں جن میں دو خاندانوں کے درمیان کسی تنازعے کو حل کرنے، دشمنی یا بدلہ لینے کے لیے کم عمر بچے بچیوں کی شادیاں کر دی جاتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 2023 میں کم عمری کی شادیوں کے 22 کیس صوبہ سندھ جبکہ چار کیس پنجاب سے رپورٹ ہوئے۔ اسی طرح 29 میں سے 18 کیس دیہات جبکہ 11 کیس شہری علاقوں سے رپورٹ ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق ان کیسز میں سے 67 فیصد ہی پولیس کے پاس رجسٹر ہوسکے۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایڈووکیٹ احمر مجید نے حالیہ واقعے کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کم عمری یا زبردستی کی شادیوں کے حوالے سے پاکستان پینل کوڈ 1860 کی شق 310A کے تحت اگر کوئی کسی خاتون کو زبردستی شادی پر مجبور کرے یا کسی سول یا فوجداری تنازعے کی صورت میں خاتون کو  صلح، ونی یا سوارہ کی شکل میں کسی کے نکاح میں دیا جائے یا اسے نکاح پر مجبور کیا جائے تو دونوں صورتوں میں ایسا کرنے والے کو سات سال یا کم سے کم تین برس قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہوگی۔‘

ایڈووکیٹ احمر مجید کا مزید کہنا تھا کہ ’چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 کی شق چار کے تحت اگر کوئی بالغ شخص کسی بچے سے شادی کرتا ہے تو اسے چھ ماہ تک کی سزا اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا دی جائے گی۔

’اسی طرح اس ایکٹ کی شق پانچ کے مطابق کوئی بھی شخص جو بچوں کی شادی کروانے کا مرتکب ہو، اسے چھ ماہ کی قید اور 50 ہزار روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے بشرطیکہ وہ یہ ثابت کر دے کہ اس کے پاس یہ ماننے کی کوئی وجہ تھی کہ یہ شادی کم عمری کی نہیں تھی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’ایکٹ کی شق چھ کے مطابق اگر ایک نابالغ کی شادی کا معاہدہ کیا جائے اور کوئی بھی شخص جو اس نابالغ کا ذمہ دار ہو، چاہے والدین یا سرپرست کے طور پر یا کسی اور حیثیت میں اور وہ اس شادی کی اجازت دیتا ہے یا اسے روکتا نہیں ہے تو اس کی سزا چھ جبکہ جرمانہ 50 ہزار روپے ہوگا۔‘

چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 کے مطابق اگر لڑکے کی عمر 18 سال سے کم ہے تو وہ بچہ یا نابالغ کہلائے گا جبکہ لڑکی کی عمر کی حد 16 برس ہے، اس سے کم عمر کو نابالغ سمجھا جائے گا۔

ایڈوکیٹ احمر مجید کا کہنا تھا کہ ’حالیہ واقعے میں پانچ سالہ بچی اور 13 سالہ بچے کی شادی کے کیس میں جو ایف آئی آر درج کی گئی ہے، اس میں قانونی سقم ہے کیونکہ اس میں چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 کے تحت لگائی جانے والی دفعات ناقابل دست اندازی پولیس ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ان دفعات کے تحت ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔

’اگر پولیس کے پاس شکایت جاتی ہے تو وہ اس کی ایک رپورٹ اپنے پاس بنا کر مجسٹریٹ کو بھیجیں گے اور اگر مجسٹریٹ کہیں گے کہ وہ ملزمان کو گرفتار کر کے لائیں تو انہیں گرفتار کیا جائے گا۔‘

انہوں نے بتایا: ’ہم گذشتہ 15 سال سے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کم عمری کی شادی ایک قابلِ دست اندازی پولیس جرم ہونا چاہیے، جس میں پولیس ایف آئی آر درج کر سکے تاکہ جتنے ملوث ملزمان ہیں، انہیں موقعے سے گرفتار کرکے سزا دی جا سکے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس مخصوص کیس میں بچہ خود 13 سال کا نا بالغ ہے اور وہ متاثرین میں آتا ہے، اس لیے اس پر کوئی الزام نہیں آئے گا لیکن چونکہ یہ کیس ونی کا ہے، اس لیے اسے بدلہ صلح کے تحت لیا جائے گا اور پنچایتی، والدین اور تمام ملوث افراد کے خلاف کارروائی ہوگی۔‘

ایڈووکیٹ احمر نے بتایا کہ گذشتہ ماہ میں نے چائلڈ میرج ریسٹرینٹ 25-2024 کے نام سے ایک بل ڈرافٹ کیا تھا، جسے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی چیئرپرسن اور رکن صوبائی اسمبلی پنجاب سارہ احمد نے  جمع کروایا تھا۔

’ہم کوشش کر رہے ہیں کہ وہ بل پاس ہو جائے اور کم عمری کی شادی کو روکنے کے حوالے سے جو خامیاں ہیں، ان کو دور کیا جا سکے لیکن بدقسمتی سے وہ بل گذشتہ ماہ سے پنجاب اسمبلی میں جمع ہوچکا ہے، مگر اس پر اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ ماسوائے اس کے کہ سپیکر پنجاب اسمبلی نے ایک پانچ رکنی کمیٹی بنا دی تھی۔‘

جب اس حوالے سے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی چیئر پرسن اور رکن پنجاب اسمبلی سارہ احمد سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ اپریل میں انہوں نے پنجاب حکومت کو چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل 25-2024 کی تجویز دی تھی، جس میں لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 16 کی بجائے 18 سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

بقول سارہ احمد: ’وہ بل میں نے محکمہ داخلہ کو بھیجا تھا، ابھی وہ محکمہ قانون میں ہے جہاں سے وہ وزیراعلیٰ کے دفتر کے ذریعے کابینہ کے پاس جائے گا اور وہاں سے اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا لیکن اس میں ہم نے عمر کی تبدیلی کی بات کی ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کی شادی کی عمر کو 18 سال کر دیا جائے۔‘

دوسری جانب پراسیکیوٹر جنرل پنجاب فرہاد علی شاہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کم عمری کی شادی کے حوالے سے ایس او پیز تیار کر رکھے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ’28 فروری 2024 کو لاہور ہائی کورٹ، ملتان بینچ نے ایک حکم دیا کہ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 کے تحت کم عمری کی شادیوں کو روکنے کے لیے ایس او پیز تیار کیے جائیں۔ ہم نے وہ ایس او پیز بنا کردیے ہیں، جن کے تحت کسی بھی لڑکی کی شادی رجسٹر نہیں ہوگی جب تک اس کا شناختی کارڈ نہیں ہوگا۔‘

بقول فرہاد علی شاہ: ’چونکہ لڑکی کی شادی کی رجسٹریشن 16 سال کی عمر میں ہو سکتی ہے اور اس کیس میں اگر اس کا شناختی کارڈ نہیں ہے تو اس کا آسی فکیشن ٹیسٹ (وہ ٹیسٹ جس سے عمر کا تعین ہوتا ہے) ہوگا، جس میں اس کی عمر کا تعین کیا جائے گا اور اس کے بعد اس کی رجسٹریشن کروائی جائے گا۔ یہ دراصل زبردستی کی شادی یا بھاگ کر کی گئی شادی کو روکنے کے لیے کیا گیا کیونکہ یہاں 16 سے کم عمر کی بچیوں کی شادیاں کردی جاتی ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’ہم نے اس میں شادی کی رجسٹریشن کا طریقہ کار دے دیا ہے، پولیس ایسے کیسز میں ایف آئی آر درج کرے گی، جس میں شناختی کارڈ یا عمر کے تعین کے ٹیسٹ کے بغیر شادی رجسٹر کی گئی ہے۔ اس کے اندر سیکرٹری یونین کونسل بھی جواب دہ ہوں گے اور ان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔‘

حالیہ واقعے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’پنچایت نے فیصلہ کیا ہوگا کہ بچوں کا نکاح کر دیا جائے لیکن ان کے خلاف پوری کارروائی ہوگی اور اس میں ملوث سب افراد پکڑے جائیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی گھر