عدالتی فیصلوں پر تنقید بلاجواز: سپریم کورٹ کا برطانوی ہائی کمیشن کو خط

پاکستان سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے برطانوی ہائی کمشنر کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ برطانیہ بھی اپنی ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرے۔

برٹش ہائی کمشنر جین میریٹ نے 27 اپریل 2024 کو لاہور میں تقریر کی تھی جس میں پاکستان میں جمہوریت کو موضوع بنایا گیا تھا (برٹش ہائی کمشن/انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے بلے نشان کے عدالتی فیصلہ پر برطانوی ہائی کمیشن کی تنقید پر بدھ کو بذریعہ خط جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’ایک سیاسی جماعت نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے، اس فیصلے کے بارے میں آپ کی تنقید بلاجواز تھی۔‘

بدھ کو لکھے جانے والے خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ’عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں آپ کی پرجوش تقریر میں جمہوریت کی اہمیت، انتخابات اور کھلے معاشرے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا، برطانوی حکومت کی طرف سے دکھائی جانے والی دلچسپی خوش آئند ہے۔‘

‏خط رجسٹرارسپریم کورٹ نے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے حکم پر لکھا ہے جس میں کہا گیا کہ ’برطانوی ہائی کمشنر نے عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں جمہوریت اور کھلے معاشرے کی بات کی، سپریم کورٹ  نے غلطیوں کا ازالہ کیا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ برطانیہ بھی ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرے۔‘

 تین صفحات پر مشتمل خط میں 1953 میں ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے اور بالفور اعلامیہ کے ذریعے اسرائیلی ریاست کے قیام کا تذکرہ بھی کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ’برطانوی حکومت نے دو نومبر 1917 کو اپنے شہری کو خط لکھا جس میں ایک آباد کار نوآبادیاتی ریاست کے قیام کے اپنے فیصلے سے آگاہ کیا، اس فیصلے کو علاقے کے لوگوں نے جو اس سے متاثر ہوئے اور نہ ہی آپ کے لوگوں نے ووٹ دیا، برطانوی حکومت نے یکطرفہ طور پر اس کا فیصلہ کیا، بالفور اعلامیہ وہ بنیاد بن گیا جس پر ایک نسلی ریاست قائم ہوئی، جو لوگ ہمیشہ وہاں رہتے تھے اس نسلی ریاست سے نکال دیئے گئے، ان پر وحشیانہ تشدد ہوا اور ہزاروں بچے مارے گئے، جو بچ گئے وہ معذور ہوئے۔‘

خط میں کہا گیا کہ ’یہ بات خوش آئند تھی کہ آپ نے بارہا ’اوپن سوسائٹیز‘ کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ متحرک جمہوریتوں کے لیے ضروری ہے، آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ سپریم کورٹ نے معلومات کے حق کو تسلیم کیا ہے، اسے خود پر بھی لاگو کیا ہے، اس کے فیصلے کی کاپی ساتھ منسلک ہے، ماضی کی پرتشدد غیر جمہوری غلطیوں پر قائم رہنا موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے ٹھیک نہیں، آئیے سچائی کو اپنائیں۔‘

خط میں پوچھا گیا ہے کہ ’کیا 1953 میں محمد مصدق کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹنا، ایرانی تیل پر قبضہ کرنا، سات دہائیوں سے زیادہ چھپنے کے بعد ظاہر نہیں ہونا چاہیے؟ کیا یہ مجرم اور مظلوم کے لیے بہتر نہیں ہو گا؟ کیا یہ اعتماد، ممکنہ طور پر دوستی اور امن کو جنم نہیں دے گا؟

’پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے کے 90 دن کے اندر انتخابات کرانا ضروری تھا، انتخابات اس لیے بر وقت نہیں ہو سکے تھے کیوں کہ صدر اور الیکشن کمیشن متفق نہیں تھے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار کس کو ہے، سپریم کورٹ نے یہ معاملہ صرف 12 دنوں میں حل کر دیا، آٹھ فروری 2024 کو پورے پاکستان میں عام انتخابات ہوئے۔‘

’پاکستان میں الیکشن لڑنے کے خواہش مند بہت سے لوگوں کو تاحیات پابندی کا سامنا کرنا پڑتا تھا، کیونکہ سپریم کورٹ کی طرف سے انہیں ایماندار اور قابل اعتماد (‘صادق’ اور ‘امین’) نہیں سمجھا جاتا تھا، تاہم سات رکنی بنچ نے پہلے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ آئین اور قانون کے مطابق نہیں ہے، انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد آمریت کو روکنے کے لئے اور سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کی ضرورت ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس جمہوری اصول کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے قانون میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرواتی تو وہ انتخابی نشان کے لیے اہل نہیں ہو گی، ایک سیاسی جماعت (جس نے خود اس قانون میں ووٹ دیا تھا) نے لازمی انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے تھے، سپریم کورٹ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ قانون نے کیا کہا ہے۔‘

خط میں مزید لکھا ہے کہ ’یہ بات قابل ذکر ہے کہ موجودہ چیف جسٹس کے عہدہ سنبھالنے کے بعد ہی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عوامی اہمیت کے مقدمات براہ راست نشر ہونے لگے، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے مقدمات لائیو نشر کرنے کی اجازت دی تاکہ پاکستانی عوام سپریم کورٹ کی کارروائی کو مکمل طور پر دیکھ سکتی ہے تاکہ عوام کو بھی مقدمات کی شفافیت اور فیصلوں بارے علم ہو، انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی نشانات کے بارے میں فیصلہ بھی براہ راست نشر کیا گیا تھا۔‘

برطانوی ہائی کمشنر نے کیا تقریر کی تھی؟

برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ نے 27 اپریل 2024 کو لاہور میں منعقد ہونے والے عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اس خطے میں جمہوریت کمزور ہے، برطانیہ دنیا کی قدیم جمہوریت میں سے ایک ہے۔ اور اس کے تسلسل کے لیے ہم ابھی بھی کام کر رہے ہیں۔

’یہ انتخابات کا سال ہے جبکہ پاکستان میں عدالتوں نے کچھ سیاسی رہنماؤں پر الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی لگائی گئی، اور کچھ کے انتخابی نشانات ختم کیے گئے۔ ووٹ کا حق ایک جمہوری حق ہے عوامی حق ایک اتھارٹی ہے۔ الیکشن کے دن انٹرنیٹ پر بھی پابندی لگائی گئی اور نتائج بھی تاخیر کا شکار ہوئے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان