پاکستان مسلم لیگ (ن ) کے قائد نواز شریف نے ہفتے کو لاہور میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان نے 2013 کے انتخابات کے بعد انہیں تعاون کی یقین دہانی کروانے کے بعد مظاہرے اور ریلیاں کر کے ’میری پیٹھ میں خنجر گھونپا۔‘
آج ن لیگ کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں نواز شریف نے کہا کہ وہ 2013 میں حکومت بنانے کے بعد سب سے پہلے عمران خان کے گھر بنی گالہ گئے تاکہ انہیں ملک کے لیے مل کر کام کرنے پر آمادہ کر سکیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ بعد ازاں عمران خان دیگر سیاسی شخصیات کے ساتھ لندن چلے گئے اور وہاں ایک سازش تیار کی گئی جس کے بعد ان کی واپسی پر ملک میں مظاہرے شروع کر دیے گئے۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ وہ اس صورت حال سے پریشان ہوئے اور کہا کہ انہیں اس معاملے یا پی ٹی آئی کے تحفظات کے بارے میں آگاہ کیا جانا چاہیے تھا۔
’میں آپ سے ملنے آتا ہوں لیکن آپ تعاون کی یقین دہانی کروانے کے بعد میری پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہیں اور اسلام آباد کے ڈی چوک پر احتجاج شروع کر دیتے ہیں؟‘
نواز شریف نے کہا کہ ان کی کابینہ کے ارکان نے عمران خان کے احتجاج کے خلاف پولیس فورس طلب کی لیکن انہوں نے انہیں ایسا نہ کرنے کی ہدایت کی۔
انڈپینڈنٹ اردو نے نواز شریف کی تقریر پر ردعمل جاننے کے لیے پاکستان تحریک انصاف سے رابطہ کیا ہے۔ ردعمل سامنے آنے پر اس خبر میں شائع کر لیا جائے گا۔
انہوں نے تقریر کے دوران سوال کیا کہ 25 کروڑ عوام کی نمائندگی کرنے والے وزیر اعظم کو ’تین لوگ بیٹھ کر تاحیات نااہل قرار دے دیتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ جج دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں وزرائے اعظم یا صدور کو نہیں ہٹا سکتے لیکن یہاں انہیں اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے ایک چھوٹے سے معاملے پر ہٹایا گیا۔
نواز شریف کے بقول: ’مجھے تھوڑا سا گلہ قوم سے بھی ہے۔ میں دل کی بات کر رہا ہوں۔ ایک وزیر اعظم کو جھوٹے کیس میں بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں فارغ کر دیا جاتا ہے اور قوم خاموش بیٹھی رہی۔ مسلم لیگ ن کے ساتھیوں پر سنگین کیسز بنائے گئے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی کے ارکان نے ان کیسز کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور بھاگنے کی بجائے کہا کہ ’پارٹی چھوڑنے سے بہتر ہے کہ جیل سے لاش جائے۔‘
نواز شریف نے اپنی نااہلی سے متعلق کہا کہ ’حکومت سے نکالنے پر ہی نہیں رکے، پارٹی صدرات سے بھی مجھے ہٹایا گیا، آپ کو مجھے پارٹی صدارت سے ہٹانے کا کیا اختیار ہے؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے قبل آج لاہور میں ن لیگ کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں طے پایا کہ پارٹی کے صدر کا الیکشن 28 مئی کو کروایا جائے گا۔
ایک گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہنے والے اجلاس کے بعد ن لیگ کے رہنما سیف الملوک کھوکھر نے میڈیا کو بتایا کہ نواز شریف نے ہدایت کی ہے کہ 28 مئی کو جنرل کونسل کے اجلاس میں پارٹی صدارت کا فیصلہ کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف 28 مئی تک ن لیگ کے قائم مقام صدر رہیں گے۔ رانا ثنا اللہ کو پارٹی الیکشن میں چیف الیکشن کمشنر نامزد کیا گیا ہے۔
اجلاس میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز، وزیر خارجہ و نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار، خواجہ سعد رفیق سمیت چاروں صوبوں، پاکستان کے زیر کشمیر اور گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے 109 سے زائد ارکان نے شرکت کی۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں شہباز شریف کا استعفیٰ منظور کرنے کا اعلان کیا گیا۔
پیر کو وزیر اعظم شہباز شریف نے مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے استعفیٰ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ان کے بھائی دوبارہ پارٹی کے صدر کا عہدہ سنبھالیں۔
2018 میں سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے فیصلہ سنایا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نااہل شخص کسی سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں رہ سکتا۔
گذشتہ ماہ مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ نے نواز شریف سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے خلاف قانونی مقدمات میں ریلیف ملنے کے بعد پارٹی کی صدارت سنبھالیں۔