پاکستانی کشمیر کے حالیہ احتجاج میں خواتین کا کیا کردار رہا ؟

عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے گذشتہ ماہ بجلی اور آٹے پر سبسڈی کے لیے کامیاب احتجاج کیا گیا، جس میں مرد تو پیش پیش دکھائی دیے لیکن خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں گذشتہ ماہ عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے بجلی اور آٹے پر سبسڈی کے لیے کامیاب احتجاج کیا گیا، جس میں کشمیر کی مقامی آبادی نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

انڈپینڈنٹ اردو کے لیے اس احتجاج کی کوریج کے دوران ہم نے دیکھا کہ سڑکوں اور گلی محلوں میں احتجاج اور بعدازاں مطالبات کی منظوری کے بعد جشن کے دوران بھی مرد تو ہر جگہ تھے لیکن اس تحریک میں خواتین کہیں نظر نہ آئیں۔

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے مظفر آباد سے تعلق رکھنے والی طالبہ اور سماجی کارکن سورہ نسا سے بات کی جو طلبہ یونین کی نائب صدر بھی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مطالبات منظور کروانے سے متعلق حالیہ تحریک میں خواتین 10 مئی تک کافی پیش پیش رہیں کیونکہ تب تک حالات کشیدہ نہیں تھے، اس لیے خواتین نے بھرپور طریقے سے اس میں حصہ لیا۔

انہوں نے بتایا کہ ’اس تحریک کے دوسرے مرحلے میں حالات اتنے کشیدہ ہو گئے کہ خواتین سامنے آ کر اپنا کردار ادا نہیں کر سکتی تھیں۔‘

بقول سورہ نسا، یہی وجہ ہے کہ ’ماؤں نے اپنے بیٹوں کو، بہنوں نے اپنے بھائیوں کو منظر عام پر بھیجا، ان کے سر پر کفن باندھ کر انہیں بھیجا تاکہ وہ جا کر اپنے حقوق کے لیے لڑیں جبکہ خواتین نے سوشل میڈیا پر اپنے بیانیے کو شیئر کرکے بھرپور طریقے سے اپنا کرداد ادا کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہماری تحریک بھرپور طریقے سے کامیاب ہو چکی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے مختلف علاقوں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی کوریج کی تھی، جن میں تتہ پانی، راولاکوٹ اور مظفر آباد سمیت دیگر علاقے شامل ہیں۔

ان علاقوں سمیت کشمیر بھر میں عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال سمیت کسی بھی قسم کی پبلک ٹرانسپورٹ کی بندش کی گئی تھی۔

اس لاک ڈاؤن کی صورت حال میں جہاں کاروباری طبقے نے نقصان برداشت کیا، وہیں سکول، کالجوں اور نوکری پیشہ خواتین کو بھی شدید مشکلات کا سامنا تھا۔

جامعہ کشمیر کی طالبہ سورہ نسا نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس حوالے سے بتایا کہ ان سمیت تمام طلبہ کو کافی مشکلات کا سامنا رہا۔ انہیں اپنی یونیورسٹیوں اور دفاتر سے چھٹی کرنی پڑی، جس سے ان کی تعلیم اور کام کا نقصان ہوا۔

سورہ نسا نے بتایا کہ ’اگر گھریلو خواتین کی بات کی جائے تو گھر میں موجود خواتین محصور ہو کر رہ گئی تھیں کیونکہ گھر کے مرد باہر احتجاج میں شریک تھے جبکہ خواتین کو اپنے بچوں کو کھانا کھلانے میں بھی کافی تنگی کا سامنا تھا۔‘

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پاکستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں خواتین پر کوئی زیادہ معاشرتی پابندیاں نہیں ہیں۔

مظاہرین کی نمائندہ تنظیم ’عوامی ایکشن کمیٹی‘ نے مطالبات کی منظوری کے بعد 14 مئی کو احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

ان مطالبات میں احتجاج کے دوران جان سے جانے والے تین نوجوانوں کے لواحقین کو قصاص ادا کرنے، عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک کے خلاف درج تمام مقدمات ختم اور گرفتار افراد کو رہا کرنے سمیت میرپور ڈویژن اور مظفرآباد میں پولیس تشدد کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کا قیام شامل تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین