وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں واضح کمی کے فیصلے پر عمل نہ ہونے کے اقدام کو لاہور ہائی کورٹ میں ہفتے کو درخواست دے کر چیلنج کر دیا گیا۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے متعلق وزیر اعظم کی جانب سے 31 مئی کی شام فیصلہ سامنے آیا کہ پیٹرول فی لیٹر 15روپے چار پیسے، ڈیزل سات روپے نو پیسے کم کرنے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔
اس بارے میں وزیر اعظم ہاؤس سے میڈیا کو تحریری خبر بھی جاری کر دی گئی تھی۔
لیکن کچھ ہی دیر بعد وزیراعظم شہباز شریف کا فیصلہ نظر انداز کرتے ہوئے وزارت خزانہ نے پیٹرول کی قیمت میں چار روپے 74 پیسے، ہائی سپیڈ ڈیزل کی فی لیٹر قیمت تین روپے 86 پیسے کمی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔
جس کے بعد سوشل میڈیا پر وزیر اعظم کے احکامات نظر انداز کر کے وزارت خزانہ کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیوں میں کم کمی پر تنقید کی جارہی ہے۔
دووسری جانب ہفتے کو لاہور ہائی کورٹ میں وزارت خزانہ کی جانب سے وزیر اعظم کے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے احکامات نظر انداز کرنے کے وزارت خزانہ کے اقدام کو چیلنج کردیا گیا ہے۔
اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی جانب سے درخواست میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں وزیر اعظم کے حکم کے مطابق کم نہ کرنے کو غیر آئینی اقدام قرار دیتے ہوئے قیمتوں کے تعین کا طریقہ کار وضح کرکے عالمی مارکیٹ کے مطابق طے کرنے کی استدعا کی ہے۔
تاہم پراسکیوٹر جنرل پنجاب فرہاد علی شاہ کے مطابق ’وزیر اعظم ایڈوائس کر سکتے ہیں جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتون کا تعین وزارت خزانہ اور اوگرا نے ہی کرنا ہوتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ترجمان پنجاب حکومت عظمیٰ بخاری نے کہا کہ ’حکومت عالمی مارکیٹ کے مطابق پیٹرول کی قیمت مقرر کر رہی ہے اگر اضافہ ہوتا ہے تو بڑھانا مجبوری جبکہ کمی آئے تو مرحلہ وار کمی کر دی جاتی ہے۔ اس مہینے پیٹرول کی فی لیٹر قیمت 20 سے 21 روپے تک کم کی گئی ہے۔‘
اظہر صدیق نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کے لیے حکومت کیا طریقہ کار اختیار کرتی ہے یہ آج تک واضح نہیں ہوسکا۔ کبھی اوگرا کو یہ اختیار دے دیا جاتا ہے اور کبھی وزارت خزانہ قیمتوں میں ردوبدل کرتی ہے۔ جب بڑھانا ہو تو اوگرا یا وزارت خزانہ کو آگے کر دیا جاتا ہے اور کم کرنا ہوں تو حکومتی نمائندہ اعلان کردیتے ہیں۔
’ہم نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے کہ جب 31 مئی کو وزیر اعظم سربراہ مملکت نے عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت کم کرنے کا اعلان کردیا۔ تو وزارت خزانہ اور اوگرا جو ان کے ماتحت ہیں کیسے فرق کو کم کر سکتے ہیں۔‘
درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان، 1973 کے آئین کے آرٹیکل 14 اور 15 کے ساتھ آرٹیکل تین، چار، پانچ، نو، 23، 24 اور 38 کو نافذ کرایا جائے۔
اور وفاقی حکومت کو آئین و قانون کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مقرر کرنے کا حکم دیا جائے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا جائے۔ کیونکہ آئین کے آرٹیکل نو میں شہریوں پر ایسا ٹیکس لاگو نہیں ہوسکتا جس سے کسی اشیا ضرورت کی قیمت ان کی قیمت خرید سے بڑھ جائے۔
اس لیے عدالت سے اسدعا ہے کہ حکومت سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کا فارمولا پیش کرنے اور مستقل طریقہ کار طے کرنے کا بھی حکم دیا جائے۔
پراسکیوٹر جنرل پنجاب فرہاد علی شاہ کے بقول، ’قانون کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں طے کرنے کا طریقہ کار پہلے ہی موجود ہے۔ جو گذشتہ کئی سالوں سے چلتا آرہا ہے۔ جس کے مطابق حکومت قیمتوں میں ردوبدل عالمی مارکیٹ اور ملکی مالی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کرتی ہے۔ اس طریقہ کار کے مطابق وزیر اعظم صرف قیمتوں میں کمی یا اضافے کی ایڈوائس دے سکتے ہیں۔ جبکہ وزارت خزانہ اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) ڈیمانڈ ایند سپلائی کا فارمولہ مدنظر رکھتے ہوئے حتمی قیمت کا تعین کر کے نوٹیفکیشن جاری کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس بار بھی ایسا ہی ہوا کہ وزیر اعظم نے 15 روپے فی لیٹر کمی کی ایڈوائس کی مگر وزارت خزانہ اور اوگرا نے فارمولہ کے تحت قیمت میں چار روپے کمی کی ہے۔ اس میں قابل اعتراض یا غیر قانونی کوئی بات نہیں ہے۔‘