ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ کے امریکہ میں انعقاد نے ایک طرف اگر امریکہ میں کرکٹ کا جوش عروج پر پہنچا دیا ہے تو دوسری طرف کرکٹ کی تاریخ بھی تازہ ہوگئی ہے۔
امریکہ کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو بیس بال کھیلنے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔ لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ کرکٹ بیس بال سے قبل پہنچی اور تاریخ کا پہلا انٹرنیشنل میچ امریکہ میں کھیلا گیا۔
انگلینڈ کے بعد امریکہ پہلا ملک تھا جہاں اٹھارویں صدی میں کرکٹ کلبز کا قیام عمل میں آیا۔
1700 کے آغاز سے ہی کرکٹ ایک مقبول کھیل بن چکا تھا البتہ یہ صرف برطانوی چھاؤنیوں میں کھیلا جاتا تھا۔
وسیع رقبوں پر مشتمل چھاؤنیاں کرکٹ گراؤنڈ بنانے کے لیے موزوں تھیں۔ جہاں فوجی افسران آپس میں ٹیمیں بنا کر کرکٹ میچ کھیلا کرتے تھے ان کی کرکٹ کی خبریں جب چھاؤنیوں سے باہر پہنچی تو مقامی انگریزوں نے بھی کھیلنا شروع کر دیا۔
امریکہ کے دوسرے صدر جون ایڈمز تو کرکٹ کلبز کے نظام سے اتنے متاثر تھے کہ امریکہ نے برطانوی بادشاہت سے جب آزادی حاصل کی تو جون ایڈمز نے نوزائیدہ پارلیمنٹ میں 1780 میں امریکی حکومت کے سربراہ کو ’صدر‘ کا نام دینے کی تجویز پیش کی کیونکہ اس وقت کرکٹ کلبز کے سربراہ کو صدر کہا جاتا تھا۔
یہ دنیا میں صدر کے نام کا آغاز تھا۔ اس دوران امریکہ کے ساتھ کینیڈا میں بھی کرکٹ کلبز کا قیام عمل میں آگیا۔
سرحدیں ملنے اور فاصلہ کم ہونے کے باعث دونوں ممالک کے کلبز مسابقتی کرکٹ کھیلنے کی باتیں کرنے لگے۔
کینیڈا کے شہر وینکوور میں تو اس قدر کرکٹ بڑھ گئی تھی کہ باقاعدہ لیگ کرکٹ ہونے لگی اور ایک بہترین گراؤنڈ بھی بن گیا جس پر کرکٹ کے سب سے تاریخی کھلاڑی سر ڈان بریڈمین نے بھی میچ کھیلا اور یہ ان کا پسندیدہ گراؤنڈ تھا۔
پہلا انٹرنیشنل میچ
یہ بات ستمبر 1844 کی ہے جب امریکہ اور کینیڈا کے درمیان تاریخ کا پہلا انٹرنیشنل کرکٹ میچ کھیلا گیا۔
اگر موجودہ رائج عالمی مقابلوں کی بات کی جائے تو کرکٹ کا یہ میچ کسی بھی کھیل کا پہلا مقابلہ تھا۔
حتیٰ کہ اولمپک مقابلے بھی 50 سال کے بعد شروع ہوئے۔ جبکہ سرکاری طور پر کوئی پہلا کرکٹ ٹیسٹ میچ 1877 میں آسٹریلیا میں ہوا لیکن امریکہ کے میچ کو تاریخی طور پر اولیت حاصل ہے۔
نیویارک کے بلو مینڈیل پارک میں اس میچ کو دیکھنے 10 ہزار سے زائد تماشائی موجود تھے جن کے جوش وخروش کو اگلے دن اخبارات نے بھرپور کوریج دی۔
کینیڈا کی ٹیم کا زبردست استقبال کیا گیا۔
کینیڈا کی کرکٹ ٹیم کے میچ کی بازگشت برطانیہ تک بھی پہنچی تھی جس نے برطانوی انگریزوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
کرکٹ کو گھر کی باندی سمجھنے والے انگریز انگشت بدانداں ہوگئے۔
شاید یہ بات قابل حیرت ہو کہ اس میچ میں اشتہاری بورڈ باؤنڈری لائن پر لگائے گئے جس سے دس ہزار ڈالر کی آمدنی ہوئی۔
کرکٹ امریکہ کی دس سے زائد ریاستوں میں شروع ہو چکی تھی لیکن کرکٹ اب تک ایک شوقیہ کھیل اور کسی منظم تنظیم کے بغیر تھی۔
امریکہ کے سابق صدر ابراہم لنکن نے 1849 میں دو دن تک مسلسل ایک میچ دیکھا تھا۔
وہ سول وار کے بعد اس برطانوی کھیل کو امریکہ کا قومی کھیل بنانے میں دلچسپی رکھتے تھے شاید یہ ایک سیاسی حربہ تھا جس سے وہ انگریزوں کو مات دینا چاہتے تھے۔
امریکہ کی کسی ٹیم نے سب سے پہلے 1874 میں انگلینڈ کا دورہ کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں بیس بال کے کھلاڑی بھی شامل تھے۔
اس ٹیم نے مخلتف کلبز سے میچ کھیلے لیکن کسی بھی جگہ ان کا پرجوش استقبال نہیں ہوا۔
بظاہر برطانوی امریکی ٹیم کی حوصلہ شکنی کر رہے تھے۔
1903 میں کینٹ کاؤنٹی کی ٹیم نے امریکہ کا دورہ کیا جبکہ دوسال بعد ایم سی سی کی ٹیم نے بھی امریکہ کا دورہ کیا۔
یہ دورہ سرد مہری کا شکار رہا۔
اب کرکٹ سے بڑھتا ہوا شوق واضح طور پر کم ہورہا تھا۔
یہ کسی بھی ٹیم کا آخری دورہ ثابت ہوا اور اس کے ساتھ کرکٹ سرنگوں ہوگئی۔
کرکٹ کا چاند ماند کیسے پڑا؟
جب کرکٹ امریکہ میں مقبول ہورہی تھی تو پھر وہ کون سے عوامل تھے جو کرکٹ کی ترقی اور ترویج میں آڑے آگئے اور کرکٹ بتدریج ختم ہو گئی۔
اگر غیر جانبدار پر جائزہ لیا جائے تو امریکہ میں کرکٹ کو تباہ کرنے والے برطانوی تھے۔
1800 کی آخری دھائیوں تک کرکٹ شوقیہ کھیل تھا لیکن برطانیہ میں کرکٹ کے ذمہ داروں نے اسے ایک پروفیشنل کھیل بنانے کا تہیہ کرلیا۔
جس سے شوقیہ کھلاڑی پیچھے ہوتے چلے گئے۔
جب 1909 میں امپیرئل کرکٹ کانفرنس کی بنیاد رکھی گئی تو اس نے ان تمام ممالک کو رکنیت دینے سے انکار کردیا جو برطانوی بادشاہت کے زیر اثر نہیں تھے۔
یہ ایک ایسا جانبدارانہ عمل تھا جس کی زد میں سب سے پہلے امریکہ آیا۔
چونکہ امریکہ اور برطانیہ میں اختلافات روز بروز بڑھ رہے تھے کرکٹ کو برطانوی کھیل سمجھتے ہوئے نفرت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔
یہاں سے امریکہ میں کرکٹ کا زوال شروع ہوگیا اور 1910 تک تمام کلبز ختم ہوچکے تھے اور کرکٹ گراؤنڈز بند کردیے گئے۔
ہرے بھرے گراؤنڈز گولف اور ٹینس کے مراکز بن گئے کرکٹ کے اس زوال کے ذمہ دار خود برطانوی تھے۔
کرکٹ کا دوسرا جنم
کرکٹ شاید ایک حرف اجنبی رہتا لیکن بیسویں صدی میں ایشیائی ممالک اور کیئربین ممالک کے شہریوں نے جب امریکہ کی طرف ہجرت شروع کی تو وہ اپنے ساتھ کرکٹ بھی لے کر آئے لیکن اب کرکٹ کو وہ تمام سہولیات حاصل نہیں تھیں ۔ کرکٹ گراؤنڈ ناپید اور کھلاڑی انجان۔
طویل فاصلوں اور کلب کرکٹ سے ناواقفیت کے باعث کرکٹ ایک جزوقتی کھیل رہا۔ لیکن وقت کے ساتھ جب انڈین اور پاکستانی بڑی تعداد میں امریکہ پہنچے تو کرکٹ باقاعدہ طور پر کھیلی جانے لگی اور جنوبی امریکی ریاستوں میں کرکٹ منظم ہونے لگی۔
مختلف کلبز نے جمع ہوکر 1961 میں امریکہ کرکٹ ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی جسے 1965 میں آئی سی سی نے رکنیت دے دی۔
امریکہ کے لیے ابھی بہت کام باقی تھا۔
انٹرنیشنل مقابلوں سے پہلے مقامی افراد پر مشتمل ایک ٹیم کا قیام عمل میں لانا تھا۔
امریکہ اگلے 10 سال تک مقامی سطح کی کرکٹ کھیلتا رہا۔
انٹرنیشنل کرکٹ میں اس کی آمد 1979 میں ہوئی جب اس نے آئی سی سی ٹرافی میں حصہ لیا۔
یہ 1979 کے ورلڈکپ کے لیے دو ٹیموں کی کوالیفکیشن تھی۔
امریکہ نے آئی سی سی رکنیت کے بعد اپنا پہلا انٹرنیشنل میچ 2004 کی آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں کھیلا۔
امریکہ نے اب تک 51 ایک روزہ اور 25 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ کھیلے ہیں
امریکہ اب کینیڈا کے ساتھ آئندہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں شامل ہے۔ اور دونوں پاکستان اور انڈیا کے ساتھ ایک گروپ میں شامل ہیں۔
بیس بال کیوں آگے نکل گئی؟
بیس بال اس وقت امریکہ کا مقبول ترین کھیل اور غیر سرکاری طور پر قومی کھیل ہے۔ امریکہ کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے کلبز جو ہزاروں کی تعداد میں ہیں، وہ خود کماؤ پوت ہیں اور خوبصورت گراؤنڈز کے مالک ہیں۔
بیس اگرچہ کرکٹ کے بعد شروع ہوئی لیکن اب اس سے زیادہ تاریخ پر قابض ہے۔
بیس بال کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ اس کا دورانیہ اور چھوٹی فیلڈ ہے آسان قوانین اور کم سامان کے باعث اس کو خواص و عام میں مقبولیت حاصل ہے۔
کرکٹ کے طویل دورانیے کا اب جواب ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ڈھونڈ لیا گیا ہے لیکن بیس بال تک ہر امریکی کی پہنچ ہے جبکہ کرکٹ ایک مخصوص طبقے کا کھیل بن چکا ہے۔
بیس بال میں بھاری سرمایہ کاری اور بڑے کاروباری اداروں کی دلچسپی نے اسے ٹی وی پر بہت زیادہ وقت دے دیا ہے لیکن کرکٹ ابھی تک اپنی ارتقا کے مراحل میں ہے۔
آئی سی سی کا کردار
آئی سی سی گذشتہ 20 سال سے ایک فیوچر کرکٹ پروگرام پر عمل کر رہی ہے جس کے تحت غیر روایتی ممالک میں کرکٹ کے فروغ کے لیے اقدامات بھی ہیں۔
آئندہ ورلڈکپ کے لیے امریکہ میں تین مقامات پر میچز نے کرکٹ کو پھر سے خبروں میں پہنچا دیا ہے۔
امریکی ریاست ڈیلاس اور فلوریڈا میں تو اعلیٰ معیار کے دو گراؤنڈز موجود ہیں لیکن نیویارک میں آئی سی سی نے ایک نیا سٹیڈیم چار ماہ کی مدت میں تعمیر کرکے کمال کر دیا ہے۔
آئزن ہاؤر پارک میں گولف فیلڈ کے ساتھ سٹیڈیم آخری خبریں آنے تک مکمل ہوچکا ہے۔ نئی پچ اور گھاس لگائی جاچکی۔
34ہزار تماشائیوں کے بیٹھنے کے لیے عارضی کرسیاں نصب ہوچکی ہیں۔ ڈریسنگ روم اور ہاسپٹیلٹی باکسز بھی بن چکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نو جون کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان تاریخی میچ کھیلا جائے گا۔ اس میچ کی تمام ٹکٹ فروخت ہوچکی ہیں۔ 30 لاکھ سے زائد انڈین پاکستانی اس میچ کے لیے شدت سے منتظر ہیں۔
کیا ورلڈ کپ سے کرکٹ کو فروغ ملے گا؟
اکثر ناقدین امریکہ میں ورلڈکپ کے انعقاد کے باوجود اسے کرکٹ کے فروغ کا ذریعہ نہیں سمجھتے ہیں۔ لیکن اس ورلڈکپ سے کرکٹ ایک مشہور کھیل بن سکتا ہے۔
اگرچہ ابھی تک انڈین پاکستانی اور کیئربین ہی کرکٹ کھیلتے ہیں لیکن کرکٹ کا تیز دورانیہ اور مختصر فارمیٹ ایک دن اسے امریکہ کا مقبول کھیل بنا دے گا۔
امریکہ کا اصل مسئلہ عالمی معیار کے کھلاڑی پیدا کرنا اور ان کے لیے مواقع پیدا کرنے ہے۔
کرکٹ منتظمین نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ مختلف ممالک کے ان بڑے کھلاڑیوں کو امیگریشن کی پیشکش کر رہے ہیں جو اپنے ملکوں میں نظر اندازکر دیے جاتے ہیں۔
پاکستان کے ایسے سینکڑوں کھلاڑی ہیں جو امریکی کلبز کی طرف سے پروفیشنل کرکٹ کھیل رہے ہیں اور بہتر معیار زندگی کے ساتھ ہزاروں ڈالرز سالانہ کما رہے ہیں۔
سمیع اسلم، فواد عالم، حماد اعظم، سہیل تنویر، کامران اکمل، رمیز راجہ جونئیر، اور بہت سے دوسرے ہیں جو کلب کرکٹ کھیل رہے ہیں۔
امریکہ میں کرکٹ کب ایک مقبول ترین کھیل بنے گا اس کا اندازہ لگانا تو مشکل ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کرکٹ کو اپنے جنم کے فوری بعد امریکہ میں تباہ کرنے میں برطانوی حکومت، برطانوی کھلاڑیوں اور منتظموں کا ہاتھ ہے۔ جنھوں نے اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لیے دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کو کرکٹ میں آگے بڑھنے نہ دیا۔
اگر دو سو سال قبل برطانیہ اپنی روایتی سیاست کو بالائے طاق رکھتا تو آج امریکہ کرکٹ کا بہت بڑا مرکز ہوتا۔