اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیر کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر خصوصی عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزائیں کالعدم قرار دے دی ہیں۔
سائفر کیس میں رواں برس 30 جنوری کو عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس کا تحریر فیصلہ جاری کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’ٹرائل کورٹ کا 30 جنوری 2024 کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔‘
عدالت کے تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیل منظور کی جاتی ہے اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت الزامات سے بری کیا جاتا ہے، عمران خان اور شاہ محمود قریشی کسی اور مقدمے میں گرفتار نہیں تو رہا کیا جائے۔‘
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت بننے والی عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے ملزمان کی موجودگی میں مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے سزا سنائی تھی، جس کے بعد فیصلہ ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے سزاؤں کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پیر کو کیس کی سماعت کرتے ہوئے سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر خصوصی عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزائیں کالعدم قرار دیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ’شام کو کیے گئے ٹرائل کی کیا حیثیت ہو گی؟ اس حوالے سے بھی پوچھیں گے، ایسی کیا بے چینی تھی کہ رات کے نو بجے بھی ٹرائل ہو رہا تھا؟ یہ ہائبرڈ قسم کا کیس ہے اور اس میں نئی عدالتی نظیر تیار ہو گی۔‘
’آرٹییکل 10A کے مطابق فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کرنا ضروری ہیں‘
چیف جسٹس نے اپیلوں کی سماعت کے دوران ایک موقع پر کہا کہ ’آرٹییکل 10A کے مطابق فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کرنا ضروری ہیں، کوئی قدغن نہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر ٹرائل نہیں ہو سکتا، روزانہ کی بنیاد پر بھی ٹرائل منطقی طور پر ہونا چاہیے۔‘
بیرسٹر سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ ’24 جنوری کو چار گواہوں پر شام تک جرح ہوئی، 25 جنوری کو بانی پی ٹی آئی کے وکیل نے بیماری کی وجہ سے التوا کی درخواست دی، بانی پی ٹی آئی کے وکیل ایک دن دانت میں تکلیف کی وجہ سے پیش نہیں ہو سکے، اگلے ہی روز ٹرائل جج نے سرکاری وکلا مقرر کر دیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ ’ایسی بھی کیا جلدی تھی؟‘ اس پر سلمان صفدر نے جواب دیا کہ ’مجھے نہیں معلوم لیکن شاید جج صاحب نے کوئی ڈیدلائن پوری کرنی تھی، کھانے کے بغیر سخت سردی میں ہم جیل ٹرائل کے دوران موجود تھے۔ جج صاحب اپنے فیصلے کے پیراگراف 2 میں لکھتے ہیں کہ ہائی کورٹ ڈائریکشن کی وجہ سے جلدی فیصلہ کیا، اعلیٰ عدالت کی کسی ڈائریکشن کے بغیر جلد بازی میں ٹرائل چلایا گیا، سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کی ایک ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ڈائریکشن کالعدم کر دی تھی۔‘
امریکی سائفر کا معاملہ کیا ہے؟
سابق وزیراعظم عمران خان نے 27 مارچ 2022 کو اپنی حکومت کے خاتمے سے قبل اسلام آباد میں ایک جلسہ عام میں ایک خط (سائفر) لہراتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ایک غیر ملکی حکومت کی طرف سے لکھا گیا ہے جس میں ان کی حکومت ختم کرنے کی منصوبہ بندی ظاہر ہوتی ہے۔
سائفر ایک سفارتی سرکاری دستاویز کے طور پر جانا جاتا ہے۔ عمران خان کے خلاف یہ کیس اس بنیاد پر بنایا گیا کہ انہوں نے 2022 میں امریکہ میں اس وقت تعینات پاکستان کے سابق سفارت کار اسد مجید کی طرف سے بھیجے گئے سفارتی مراسلے کے مواد کو افشا کیا۔
واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان سفارتی خط و کتابت یعنی سائفر سے متعلق عمران خان کا کہنا تھا کہ اپریل 2022 میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور بطور وزیراعظم بے دخلی امریکی سازش کا حصہ تھی۔
امریکی حکام اس کی بارہا تردید کر چکے ہیں جبکہ پاکستانی حکومت بھی کہہ چکی ہے کہ ایسے شواہد نہیں ملے ہیں کہ پاکستان کے خلاف امریکہ نے کسی طرح کی سازش کی ہو۔
بعدازاں عمران خان کے خلاف امریکی سائفر کو عام کرنے کے جرم میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اڈیالہ جیل میں قائم کی گئی خصوصی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔