انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہونے کے بعد انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بدھ کواتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے پر اتفاق کیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بی جے پی کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم سب متفقہ طور پر این ڈی اے کے سربراہ نریندر مودی کو اپنا لیڈر منتخب کرتے ہیں۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ این ڈی اے حکومت انڈیا کے ’عظیم‘ ورثے کو محفوظ رکھے گی اور ملک کی ہمہ جہت ترقی کے لیے کام کرے گی۔
انڈین میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ مودی ہفتے کو وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔
اس سے قبل انڈیا کے انتخابات کے حیران کن نتائج کے ایک دن بعد سیاسی میدان میں ہلچل مچ گئی تھی اور بی جے پی اور کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد ’انڈیا‘ دونوں ہی حکومت بنانے کے لیے کوششیں کر رہی ہیں۔
انتخابات کے دوران عام طور پر توقع کی جا رہی تھی کہ مودی کا ہندو قوم پرست ایجنڈا انہیں بھاری اکثریت سے جیت دلائے گا لیکن اب انہیں تیسری مدت کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے لیے زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی کے اتحادیوں پر انحصار کا مطلب ہے کہ انہیں تیسری مدت کے لیے وزیرِ اعظم بننے میں توقع سے کہیں زیادہ مشکل کا سامنا ہے۔
نتائج کے رجحان کے مطابق مودی کے اتحاد ’نیشنل ڈیموکریٹک الائنس‘ (این ڈی اے) نے 543 میں سے 292 نسشتیں حاصل کی ہیں اور کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ نے 234 نشستوں پر کامیابی سمیٹی ہے۔
انڈین الیکشن کمیشن کے مطابق بی جے پی نے پارلیمنٹ میں 240 سیٹیں حاصل کیں جو کہ پانچ سال پہلے کے مقابلے 303 سیٹوں سے بہت کم ہیں۔ اکثریت کے لیے بی جے پی اتحاد این ڈی اے کو مزید 32 سیٹیں چاہییں۔
دوسری جانب اپوزیشن کانگریس پارٹی نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اکیلے 99 سیٹیں حاصل کیں جو کہ 2019 میں اس کی 52 سیٹوں سے تقریباً دوگنا ہیں۔
واضح رہے کہ انڈیا میں حکومت بنانے کے لیے کم از کم 272 نشستیں درکار ہوتی ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کو نریندر مودی کو عام انتخابات میں ان کے اتحاد کی جیت پر مبارک باد دی ہے۔
جو بائیڈن نے ایکس پر لکھا: ’نریندر مودی اور نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کو ان کی جیت پر اور 65 کروڑ ووٹرز کو تاریخی الیکشن پر مبارک ہو۔‘
امریکہ کے علاوہ روسی صدر، برطانوی وزیراعظم اور یورپی یونین کے سربراہ نے بھی نریندر مودی کو مبارک باد دی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق وزیر اعظم مودی نے کابینہ کی طرف سے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کو تحلیل کرنے کی سفارش کے بعد استعفیٰ دے دیا۔
اقتدار انتقال کے مرحلے کے تحت صدر نے ان کا استعفیٰ قبول کرتے ہوئے لوک سبھا کو تحلیل کرتے ہوئے مودی کا استعفیٰ بھی منظور کر لیا۔
سیاسی مبصر نیلانجن مکوپادھیائے نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ مودی کو دوسروں کے نقطہ نظر کو عزت دینے پر مجبور کرے گا۔ ہم مزید مضبوط جمہوریت اقدار اور ایک مثبت پارلیمنٹ دیکھیں گے۔‘
ان کے بقول: ’انہیں ایک ایسا لیڈر بننا ہو گا جو وہ کبھی نہیں تھے۔ ہمیں ایک نیا مودی دیکھنے کو ملے گا۔‘
مودی کی بی جے پی نے اپنی پہلی دو میعادوں کے دوران حاصل ہونے والی اکثریتی پارلیمانی اکثریت کھو دی ہے لیکن پھر بھی امید کی جا رہی ہے کہ وہ چھوٹی جماعتوں کے اتحاد سے حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔
جب کہ ابھی حکومت بننا باقی ہے، پڑوسی ملک چین نے بدھ کو مودی کو مبارک باد دی اور کہا کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے، جاپان نے بھی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
73 سالہ مودی نے منگل کی رات ’فتح کی تقریر‘ میں کہا کہ انتخابی نتائج ایک ایسی فتح ہے جس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ اپنے ایجنڈے کو جاری رکھ سکیں گے۔ اس بیان کے بعد ان کے ہندو قوم پرست حامیوں نے ملک بھر میں جشن منایا۔
مودی نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ’ہماری تیسری مدت اقتدار میں بڑے فیصلے ہوں گے اور ملک ترقی کا ایک نیا باب لکھے گا۔ یہ مودی کی گارنٹی ہے۔‘
اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے نتائج کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک نے نریندر مودی کو مسترد کر دیا ہے۔
مبصرین اور ایگزٹ پولز نے مودی کی زبردست جیت کی پیش گوئی کی تھی۔ مودی پر ناقدین حزب اختلاف کی شخصیات کو جیلوں میں ڈالنے اور انڈیا کی 20 کروڑ سے زائد مسلم کمیونٹی کے حقوق کو پامال کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔