میٹا کے ایک سابق انجینیئر نے منگل کو الزام عائد کیا ہے کہ اس کمپنی نے غزہ میں جارحیت سے متعلق مواد کے معاملے میں جانبداری کا مظاہرہ کیا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق فراس حمد نے جانبداری کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک مقدمے میں دعویٰ کیا کہ فلسطینی انسٹاگرام پوسٹس کو دبانے کا سبب بننے والا بَگ (خرابی) ٹھیک کرنے میں مدد کی کوشش پر میٹا نے انہیں برطرف کردیا۔
فلسطینی نژاد امریکی انجینیئر فراس حمد، جو 2021 سے میٹا کی مشین لرننگ ٹیم میں شامل تھے، نے کیلیفورنیا میں سوشل میڈیا کمپنی پر امتیازی سلوک اور فروری میں اپنی برطرفی سے متعلق دیگر غلط کاموں پر میٹا پر مقدمہ دائر کیا۔
فراس حمد نے اپنی شکایت میں میٹا پر فلسطینیوں کے خلاف تعصب برتنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ کمپنی نے ملازمین کے ان رابطوں اور پیغامات کو حذف کردیا جن میں غزہ میں ان کے رشتہ داروں کی اموات کا ذکر تھا جبکہ فلسطینی پرچم والے ایموجی کے استعمال کی تحقیقات کی گئیں۔
مقدمے کے مطابق کمپنی نے اسی طرح کے تناظر میں اسرائیلی یا یوکرینی پرچم کے ایموجیز پوسٹ کرنے والے ملازمین کے لیے ایسی کوئی تحقیقات شروع نہیں کیں۔
میٹا کے ترجمان اینڈی سٹون نے کہا کہ فراس حمد کو کمپنی کی ’ڈیٹا تک رسائی کی پالیسیوں‘ کی خلاف ورزی کرنے پر برطرف کیا گیا ہے، جس میں ملازمین کی حدود مقرر کی گئی ہیں کہ وہ مختلف قسم کے ڈیٹا کے ساتھ کیا کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فراس حمد کے دعوے انسانی حقوق کی بات کرنے والے گروپوں کی طرف سے میٹا کے اسرائیل اور فلسطینی علاقوں سے متعلق اپنے پلیٹ فارمز پر پوسٹ کیے جانے والے مواد کو موڈریٹ کرنے پر دیرینہ تنقید کی عکاسی کرتے ہیں، جس میں کمپنی کی جانب سے 2021 میں شروع کی گئی بیرونی تحقیقات بھی شامل ہیں۔
غزہ میں تنازع اس وقت شروع ہوا جب حماس نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملہ کیا، جس میں 1200 افراد مارے گئے اور 250 سے زائد کو قیدی بنا لیا گیا تھا۔
غزہ کے محکمہ صحت کے حکام کے مطابق اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں 36 ہزار سے زائد افراد جان سے گئے اور انسانی بحران پیدا ہوا۔
گذشتہ سال غزہ پر اسرائیلی جارحیت شروع ہونے کے بعد سے میٹا کو ان الزامات کا سامنا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی حمایت کے اظہار کو دبا رہی ہے۔
میٹا کے تقریباً 200 ملازمین نے اس سال کے اوائل میں چیف ایگزیکٹو مارک زکربرگ اور دیگر رہنماؤں کے نام ایک کھلے خط میں اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا تھا۔
فراس حمد نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ان کی برطرفی دسمبر میں پیش آنے والے ایک واقعے کی وجہ سے ہوئی، جس میں کمپنی کے پلیٹ فارمز کے ساتھ سنگین مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک ہنگامی طریقہ کار تیار کیا گیا تھا، جسے میٹا میں ایس ای وی یا ’سائٹ ایونٹ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
شکایت میں کہا گیا کہ انہوں نے فلسطینی انسٹاگرام شخصیات کی طرف سے پوسٹ کردہ مواد پر پابندیوں سے متعلق ’ایس ای وی‘ سے نمٹنے میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی تھی، جس کی وجہ سے ان کی پوسٹس سرچ اور فیڈز میں دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔
شکایت میں الزام لگایا گیا کہ ایک معاملے میں انہیں معلوم ہوا کہ فلسطینی فوٹو جرنلسٹ معتز عزیزہ کی جانب سے پوسٹ کی گئی ایک مختصر ویڈیو کو غلط طور پر فحش قرار دیا گیا حالانکہ اس میں غزہ میں ایک تباہ شدہ عمارت دکھائی گئی تھی۔
فراس حمد نے کہا کہ انہیں ایس ای وی کے بارے میں دوسرے ملازمین سے متضاد رہنمائی ملی اور یہ بھی کہ آیا وہ اسے حل کرنے میں مدد کرنے کے مجاز تھے یا نہیں، حالانکہ وہ اس سے پہلے بھی اسی طرح کی حساس ایس ای ویز پر کام کر چکے تھے، جو اسرائیل، غزہ اور یوکرین سے متعلق ہیں۔ ان کے مینیجر نے بعد میں تحریری طور پر اس بات کی تصدیق کی کہ ایس ای وی ان کے جاب فنکشن کا حصہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگلے مہینے، جب میٹا کے نمائندے نے انہیں بتایا کہ ان کے متعلق تحقیقات ہو رہی ہیں تو فراس حمد نے داخلی امتیاز کی شکایت درج کروائی اور کچھ دن بعد انہیں نوکری سے نکال دیا گیا۔
فراس حمد کے بقول میٹا نے انہیں فوٹو جرنلسٹ معتز عزیزہ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ انہیں اس پالیسی کی خلاف ورزی کرنے پر ملازمت سے برطرف کیا گیا ہے جس میں ملازمین کو ان لوگوں کے اکاؤنٹس کے مسائل پر کام کرنے سے روکا گیا ہے، جنہیں وہ ذاتی طور پر جانتے ہیں۔ فراس حمد نے کہا کہ ان کا معتز عزیزہ سے کوئی ذاتی تعلق نہیں ہے۔
میٹا نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا کہ اس کی ڈیٹا تک رسائی کی پالیسیاں کن چیزوں سے منع کرتی ہیں یا فراس حمد کو ان کے اس دعوے پر کیوں برطرف کیا گیا۔