نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے انڈین انتخابات میں اکثریت حاصل تو کر لی ہے، تاہم وہ اب تنِ تنہا حکومت بنانے کے قابل نہیں اور انہیں لامحالہ اتحادیوں کی بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی کے لیے یہ نتائج بہت بڑا جھٹکا ہیں، کہاں ’اب کی بار، چار سو پار‘ کا نعرہ اور کہاں 272 کی سادہ اکثریت سے بھی 32 کوس دور۔
ان کے این ڈی اتحاد نے 293 نشستیں حاصل کی ہیں، اور یوں وہ حکومت بنا سکتا ہے، اور مودی جی اب بھی وزیرِ اعظم بنیں گے، لیکن اس کے لیے اچانک این ڈی اے میں شامل دوسری جماعتیں زبردست اہمیت کی حامل ہو گئی ہیں۔
ان جماعتوں میں بھی دو جماعتیں، اور ان دو جماعتوں کے دو سربراہ ایسے ہیں جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ان کے پاس پردھان منتری بھون یا ایوانِ وزیرِ اعظم کی چابیاں ہیں۔
ان میں سب سے پہلے تو تیلوگو دیشم پارٹی کے چندرا بابو نائیڈو ہیں جنہوں نے 16 نشستیں حاصل کی ہیں۔
دوسری طرف نیتیش کمار کی جنتا دل یونائیٹڈ کی جھولی میں 12 سیٹیں ہیں۔
دوسرے لفظوں میں صرف یہ دو رہنما اگر وزیرِ اعظم کے انتخاب کے وقت یا بعد میں کسی وقت نریندر مودی کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیں تو حکومت ریت کی دیوار کی طرح گر سکتی ہے، کیوں کہ ان کے بغیر این ڈی اے کی کل نشستوں کی تعداد 293 سے کم ہو کر 265 رہ جائے گی، یعنی 272 کے جادوئی ہندسے سے سات نشستوں کی دوری پر۔
نیتیش کمار، جنہیں ’پلٹو رام‘ کہا جاتا ہے
73 سالہ الیکٹریکل انجینیئر نیتیش کمار بہار سے تعلق رکھنے والے منجھے ہوئے سیاست دان ہیں اور بنیادی طور پر سوشلسٹ نظریات کے حامل ہیں۔
انہوں نے انڈین سیاست کے گرم و سرد دیکھ رکھے ہیں اور وہ نو بار بہار ریاست کے وزیرِ اعلیٰ رہ چکے ہیں، جس دوران انہوں نے کئی سیاسی اتحاد بنائے اور توڑے۔
آخری بار انہوں نے اگست 2022 میں بی جے پی کی قیادت والے اتحاد این ڈی اے سے علیحدگی اختیار کی تھی مگر حالیہ انتخابات سے صرف پانچ ماہ قبل دوبارہ اس میں شامل ہو گئے۔
نیتیش کمار نو بار وزیرِ اعلیٰ ایسے ہی نہیں بنے، بلکہ اس کے لیے انہیں متعدد بار کئی سیاسی سمجھوتے کرنے، اور پارٹیاں اور اتحاد بدلنا پڑے ہیں، یہی وجہ ہے انہیں سیاسی جوڑ توڑ کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔
ماضی کی بات جانے بھی دیں، تب بھی 2015 کے بعد سے اب تک نتیش بابو چار بار دھڑے بدل چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انڈیا میں انہیں ’پلٹو رام‘ بھی کہا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب مودی جی کا مخالف اتحاد ’انڈیا‘ جون 2023 میں قائم ہوا تو اس کا پہلا اجلاس بہار ہی میں ہوا تھا اور اس کی صدارت خود نتیش بابو نے کی تھی۔ یہ الگ بات کہ چند ماہ بعد وہ پلٹا مار کر این ڈی اے میں شامل ہو گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پلٹو رام جیسے القابات کے جواب میں نیتیش کمار کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ ریاست کے مفاد میں فیصلہ کرتے ہیں اور جہاں انہیں ریاست کی بھلائی نظر آتی ہے، اسی طرف مڑ جاتے ہیں۔
اس لیے اگر ایک بار پھر وہ ’بہار کے مفاد میں‘ پلٹا کھا جائیں تو کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔
معاشی ماہر نارا چندربابو نائیڈو
1950 میں ایک غریب کسان کے گھر پیدا ہونے والے این چندربابو نائیڈو، جنہیں ’بابو‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے، آندھرا پردیش کے وزیرِ اعلیٰ ہیں۔
انہوں نے معاشیات میں ماسٹرز کر رکھا ہے، اور پی ایچ ڈی پر بھی کام شروع کیا مگر ڈگری نہ لے سکے۔
وہ 2015 سے تیلگو دیشم پارٹی کے سربراہ ہیں۔ بابو 1978 میں مرارجی ڈیسائی کے دور میں کانگریس پارٹی کے ٹکٹ پر ریاستی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے ، تاہم بعد میں وہ اپنے سسر این ٹی راما راؤ کی قائم کردہ جماعت تیلگو دیشم پارٹی میں شامل ہو گئے۔
بابو صنعتوں کے فروغ، نج کاری اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بڑے حامی ہیں اور آندھرا پردیش کے وزیرِ اعلیٰ کے طور پر انہوں نے ریاست میں کئی ایسے اقدامات کیے ہیں جس سے آئی ٹی کو فروغ ملا ہے۔ ان میں خاص طور پر حیدرآباد انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ انجینیئرنگ کنسلٹنسی سٹی (HITEC) کا قیام قابلِ ذکر ہے۔
1997 میں ان کی قیادت میں آندھرا پردیش انڈیا کی پہلی ریاست بنا جس نے براہِ راست ورلڈ بینک سے قرض لیا تھا۔
دونوں سیکیولر رہنما
دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں نریندر مودی اور ان کی بی جے پی ہندوتوا کو کٹر قوم پرست اور ہندوتوا کے ایجنڈے کی پیروکار سمجھا جاتا ہے، تیلگو دیشم اور جنتا دل یونائیٹڈ دونوں معتدل اور سیکیولر پارٹیاں ہیں۔
اگر یہ دونوں جماعتیں مودی جی کی حمایت کریں، تب بھی وہ یقیناً اپنی 2024 کی انتخابی طاقت کے بل بوتے پر اس پوزیشن میں ہوں گی کہ مودی جی کے سخت گیر ایجنڈے پر اثر انداز ہو سکیں۔
انڈیا میں اس وقت قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے کہ یہ دونوں سیاسی گرگِ باراں دیدہ مودی جی سے اپنی حمایت کے بدلے میں کیا کیا سیاسی سودے بازی کریں گے۔
فی الحال پوزیشن یہ ہے کہ نیتیش کمار اور نائیڈو دونوں نے نریندر مودی کی حمایت کی ہے، لیکن انڈین سیاسی مبصرین کے مطابق ایک طرف تو وہ اپنی جماعتوں کے لیے کابینہ میں اہم عہدے مانگیں گے، دوسری طرف ان کی اہیمت ایسی ہو گئی ہے کہ وہ مودی جی کی پالیسیوں پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں۔